احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
مولانا صاحب ممدوح کے علاوہ دوسرے علماء کی بھی تقریریں ہوتی تھیں۔ آخر آخر میںجناب مولوی غلام قادر صاحب بھی آگئے تھے۔ جو ڈنڈیگلی ٹامل یعنی مدراسی زبان میں وعظ کہتے تھے۔ ان وعظوں میں مرزاغلام احمد قادیانی کے حالات کا بیان اور یہ کہ اس نے کس قدر توہین آنحضرتﷺ کی، اور دین اسلام کی کی۔ خود اسی کی عبارتیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سنائی گئیں اور مرزائیوں کی دونوں پارٹیوں یعنی لاہوری وقادیانی کی حالت ایسی مفصل بیان کی گئی کہ انشاء اﷲ تعالیٰ جولوگ ان وعظوں میں شریک ہوچکے ہیں امید ہے کہ کسی مرزائی کے فریب میں نہ آئیںگے۔ ردمرزائیت کے موجودہ ان وعظوں میں خود مسلمانوں کی ہدایت ۱؎ کے لئے کافی ذخیرہ ہوتا تھا۔ خصوصاً نماز اور جماعت کے متعلق بہت نفیس اور مؤثر مضامین ارشاد فرمائے گئے۔ بعض مضامین ان وعظوں کے مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے اخبارات واشتہارات میں بھی شائع کئے گئے۔ جن سے تمام صوبہ برہما کو نفع عظیم پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانان رنگون کی سعی جمیل مشکور ہوئی اور نتیجہ خاطر خواہ نکلا۔ ایک فتنہ عظیم جس کی تخم ریزی صوبہ برہما میں ہوچکی تھی۔ دفع ہوگیا اور جو کچھ ہوا سب خدا کا فضل تھا۔ ’’والحمدﷲ علی ذلک‘‘ دوسرا باب مرزااور مرزائیت کے بطلان اور خارج از اسلام ہونے کے دلائل مقدمہ میں بیان ہوچکا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے مرنے کے بعد مرزائیوں میں کس طرح افتراق پیدا ہوا اور ان میں اب تک کتنے فرقے ہوچکے ہیں۔ ان فرقوں میں مابہ الفرق عقائد کا کچھ مختصر ذکر ہوچکا ہے۔ چونکہ ان فرقوں میں نسبتاً بڑے اور مشہور یہی دو فرق ہیں۔ لاہوری، جس کے رکن اعظم خواجہ کمال الدین ہیں اور قادیانی جس کے امام مرزا کے فرزند ارجمند مرزامحمود ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر ہم انہیں دونوں کا ابطلال کافی سمجھتے ہیں۔ ومن اﷲ التوفیق! ۱؎ کاش امام اہل سنت اور دیگر علماء کے مواعظ محفوظ کر لئے جاتے تو پوری امت اس سے فائدہ اٹھاتی اور خاص کر موجودہ قادیانیوں کے لئے عبرت کا ایک کامیاب سبق ہوتا۔ بعض تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواعظ اس وقت کے اخبارات ورسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر یہ مواعظ کسی صاحب کے پاس محفوظ ہوں تو وہ راقم کے پتے پر بھیج دیں یا پھر یہ کہ مطلع فرمائیں تاکہ اسے حاصل کر کے منظر عام پر لایا جاسکے۔ فقط: شاہ عالم گورکھپوری۔ دارالعلوم دیوبند