احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
۲… ’’فمن سوء الادب ان یقال ان عیسیٰ مامات وان ھوالا شرک عظیم یا کل الحسنات‘‘ (استفتاء ملحقہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۶۶۰) ترجمہ: یہ بے ادبی ہے کہ کہا جائے کہ بے شک عیسیٰ نہیں مرے اور یہ بہت بڑا شرک ہے۔ جو نیکیوں کو کھا جاتا ہے۔ ۳… ’’اور درحقیقت صحابہؓ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق تھے اور ان کو کسی طرح یہ بات گوارا نہ تھی کہ عیسیٰ جس کا وجود شرک عظیم کی جڑ قرار دیاگیا ہے۔ زندہ ہو اور آپ فوت ہو جائیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۵، خزائن ج۲۲ ص۳۷) ۴… ’’کلا بل ھو میت ولا یعود الی الدنیا الی یوم یبعثون ومن قال متعمداً خلاف ذالک فہو من الذین ہم بالقرآن یکفرون‘‘ (استفتاء ص۴۴، خزائن ج۲۲ ص۶۶۶) ترجمہ: یاد رکھو بلکہ وہ مرچکا ہے اور وہ قیامت تک واپس نہیں آئے گا اور جو شخص اس کے خلاف کہے وہ ان لوگوں میں سے ہے جو قرآن کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ ۵… ’’ولا شک ان حیات عیسیٰ وعقیدہ نزولہ باب من ابواب الاضلال ولا یتوقع منہ الانواع الوبال‘‘ (استفتاء ص۴۷، خزائن ج۲۲ ص۶۷۰) ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ حیات عیسیٰ اور ان کے نزول کا عقیدہ گمراہی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اور اس سے سوائے قسم قسم کی مصیبتوں کے اور کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ تصویر کا دوسرا رخ مرزاقادیانی خود باون برس تک حیات عیسیٰ علیہ السلام کے قائل رہے چنانچہ فرماتے ہیں: ۱… ’’جس زمانہ میں خدا نے براہین احمدیہ میں یہ فرمایا۔ اس وقت تو میں اس دقیقہ معرفیت سے خود بے خبر تھا۔ جیسا کہ میں نے براہین احمدیہ میں اپنا عقیدہ بھی ظاہر کر دیا کہ عیسیٰ آسمان سے آنے والا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۳۸، خزائن ج۲۲ ص۳۵۱) ۲… ’’اور مجھے کب خواہش تھی کہ مسیح موعود بنتا۔ اگر مجھے یہ خواہش ہوتی تو میں براہین احمدیہ میں اپنے پہلے اعتقاد کی بناء پر کیوں لکھتا کہ مسیح آسمان سے آئے گا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۶۲، خزائن ج۲۲ ص۶۰۲)