احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
مرزائیوں کی یہ باتیں کفار مکہ کی باتوں کے مشابہ ہیں کہ وہ رسول خداﷺ سے کہتے تھے کہ لکھی لکھائی کتاب آسمان سے اتر آئے۔ آپؐ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ جائیں وغیرہ وغیرہ۔ تو ہم آپ کو نبیؐ مانیں، خدا نے فرمایا کہ یہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر باتیں ہو جائیں تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔ سچ ہے جب دل سیاہ ہوجاتا ہے تو یہی کیفیت ہوتی ہے۔ ۲… ایک روایت جو پیش کی ہے کہ اس میں رفع سے بلندی رتبہ مراد ہے۔ (قطع نظر اس سے کہ اس روایت کی صحت ثابت نہیں کی) ایک عجیب کارروائی ہے۔ کسی قرینہ کی وجہ سے کسی لفظ کے کہیں معنی مجازی مراد ہو جائیں تو کیا وہ لفظ اس معنی مجازی کے ساتھ مخصوص ہو جاتی ہے اور ہمیشہ ہی معنی مجازی مراد ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ لفظ اسد کے معنی شیر کے نہیں بلکہ بہادر آدمی کے ہیں۔ اور مثال میں یہ مقولہ پیش کر دے رایت اسد ایرمی یعنی میں نے اس کو دیکھا کہ وہ تیر مار رہا تھا تو کیا اس سے ثابت ہوگیا کہ اسدکے حقیقی معنی شیر کے نہیں ہیں اور یہ لفظ ہمیشہ بہادر آدمی ہی کے معنی میں مستعمل ہوتے ہیں۔ بلکہ اس مقولہ میں بہادر آدمی کے معنی محض یرمی کے قرینہ سے لئے گئے۔ بالکل اسی طرح کنزالعمال کی روایت مذکورہ میں رفع کے معنی رتبہ کی بلندی کے مجازاً بوجہ قرائن کے لئے گئے ہیں۔ منجملہ اور قرائن کے ایک بہت بڑا قرینہ ہے۔ خواہ وہ روایت ہے جو کنزالعمال میں روایت مذکورہ کے بعد ہی علی الاتصال مذکور ہے۔ وہی ہذہ ’’من یتواضع ﷲ درجۃ یرفعہ اﷲ درجۃ حتیٰ یجعلہ فی علیین‘‘ اس روایت میں صاف درجہ کا لفظ مذکور ہے اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ الحدیث ’’یسفر بعضہ بعضا‘‘ مگر میاں اﷲ دتہ نے اس حدیث کو نقل نہ کیا۔ اب بتاؤ کہ دھوکا دہی یہ ہے جو تم نے کی یا وہ جو تم مسلمانوں پر تہمت رکھتے تھے؟ حقیقت ومجاز میں تمیز نہ کرنا مرزائیوں کا موروثی شیوہ ہے۔ بیچاروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ معنی حقیقی کس کو کہتے ہیں اور معنی مجازی کس کو موضوع لہ اور مستعمل فیہ میں کیا فرق ہے۔ معنی حقیقی کیونکر ثابت کئے جاتے ہیں اور مجازی کیونکر۔ نفیس حکایت راقم حروف سے اور ایک مرزائی سے اسی آیت کے متعلق گفتگو ہوئی۔ مرزائی صاحب کہنے لگے کہ قرآن میں رفع کا لفظ جسم کے اٹھانے کے لئے اگر کہیں بھی دکھا دیجئے تو میں مان لوںگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جسم اٹھالیا گیا۔ اس ناچیز نے یہ آیت پڑھی ’’ورفعنا فوقکم الطور‘‘ یعنی ہم نے تم پر کوہ طور کو اٹھایا۔ مرزائی صاحب نے فرمایا کہ کوہ طور تو جسم بیجان ہے۔