احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
پیش گوئی ڈپٹی عبداﷲ آتھم امرتسری ’’آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے۔ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے۔ وہ انہیں دنوں مباحثوں کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔‘‘ (جنگ مقدس تقریر مرزا صفحات آخری، خزائن ج۶ ص۲۹۲) اس پیش گوئی کی تشریح ’’میں اقرار کرتا ہوںکہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ (۵؍جون ۱۸۹۳ئ) سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔ میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین وآسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیںگی۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘ (جنگ مقدس تقریر مرزا صفحات آخری خزائن ج۶ ص۲۹۳) ناظرین! جانتے ہو کہ پھر کیا ہوا۔ یہ کہ آتھم مرزاقادیانی کی بتلائی ہوئی میعاد کے اندر نہیںمرا اور مرزاقادیانی اس مقابلہ میں بھی ہارگئے۔ جب سب طرف سے لوگوں نے پھکڑی اڑانا شروع کی تو مرزاقادیانی نے پھر پینترا بدلا۔ عذر مرزا ’’آتھم کی موت کی پیش گوئی ہماری ذاتی رائے تھی۔ اصل پیش گوئی میں ہاویہ کا لفظ اور پیش گوئی کے دونوں میں عبدﷲ آتھم کا ڈرتے رہنا اور شہر بہ شہر بھاگتے پھرنا اس کا ہاویہ ہے۔‘‘ (انوار الاسلام ج۲ ص۵، خزائن ج۹ ص۵) الجواب مرزائیو! مرزاقادیانی کی پیش گوئی کے الفاظ ذرا آنکھوں کا پردہ ہٹا کر دیکھو۔ کس قدر زوردار ہیں۔ پھر یہ عاجزی اور بے بسی کیا معنی رکھتی ہے۔ اگر ہاویہ سے مراد موت نہ تھی تو پھر مرزاقادیانی کے مندرجہ ذیل اقوال کے کیا معنی ہوئے۔