احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کی تمام مخلوق کے لئے عام کی گئی۔ قولہ تعالیٰ ’’کافۃ للناس بشیراً ونذیراً‘‘ آپ کی شریعت کو تحریف وغیرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لے لی گئی۔ قولہ تعالیٰ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون‘‘ آپ کو دین بھی کامل دیا گیا۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ لہٰذا عقل سلیم بھی چاہتی ہے کہ سلسلہ نبوت ختم ہو جانا چاہئے اور عقل سلیم قطعاً یہ حکم لگاتی ہے کہ اب نبی کی بعثت بے ضرورت اور فعل عبث ہے۔ ’’تعالیٰ اﷲ عن ذلک‘‘ اب ایک بات باقی رہ گئی کہ احکام شرعیہ کا امت میں رائج رکھنا اگر کسی حکم کا رواج موقوف ہوگیا ہو اس کو از سر نو پھر رائج کرنا۔ کوئی نئی بات پیدا ہوگئی ہو اس کو مٹانا تو یہ کام مجدد کا ہے۔ اس کے لئے نبی کی ضرورت نہیں اور آنحضرتﷺ کو خداوند علیم وحکیم نے اس سے بھی مطئمن کردیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: میری امت میں ہمیشہ مجدد ہوتے رہیںگے۔ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ یہاں تک تو اجماعی اور عقلی دلیلیں تھیں۔ اب آپ (قدرے تفصیل سے) دلائل قرآنیہ اور احادیث نبویہ دیکھو۔ ختم نبوت قرآن مجید کی روشنی میں ۵… ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب)‘‘ {نہیں ہیں محمدﷺ باپ تم میں سے کسی مرد کے ولیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں۔} فائدہ: اس آیت میں لفظ خاتم النبیین کس قدر صاف وصریح طور پر سلسلہ نبوت کے ختم ہو جانے پر دلالت کرتی ہے۔ مگر مرزاقادیانی اور مرزائیوں نے خوب دل کھول کر اس کی تحریف معنوی کی ہے۔ کبھی تو کہتے ہیں۔ خاتم بمعنی مہر کے ہے اور مہر سند کے لئے ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ حضرت سند الانبیاء ہیں۔ یعنی اگلے نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں یا انبیائے مابعد کی سند ہیں۔ یعنی آپ کے بعد جو نبی ہوگا وہ آپ کا پیرو ہوگا۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ نبیین سے مراد مستقل نبی ہیں۔ یعنی مستقل نبیوں کا آنا ختم ہوچکا۔ اس قسم کے خرافات بہت بکے ہیں۔ مگر یہ سب خرافات دروغ بے فروغ سے زیادہ کسی لقب کے مستحق نہیں۔ کیونکہ لغت عرب ان کی تائید نہیں کرتی۔ تمام اہل لغت لکھتے ہیں کہ: ’’خاتم القوم بمعنی آخر القوم‘‘ مستعمل ہوتا ہے۔