احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
میںہے۔ الراقم: عبداﷲ الصمد مرزاغلام احمد مسیح موعود عافاہ اﷲ واید مرقومہ: یکم ربیع الاوّل ۱۳۲۵ھ، ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء (تبلیغ رسالت ج۱۰ ص۱۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸) اس دعاء کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی جو کہ خدا کی نظر میں جھوٹے تھے ایک سال بعد یعنی ’’مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریباً دس بجے دن بمرض ہیضہ اس طرح کہ ایک بڑا دست آیا اور نبض بالکل بند ہوگئی۔‘‘ (اخبار بدر قادیان ۲؍جون ۱۹۰۸ئ) اور مولوی ثناء اﷲ صاحب جو خدا کی نظر میں صادق تھے۔ بہ فضل تعالیٰ پاکستان قائم ہونے کے بعد تک زندہ وسلامت رہے۔ دوسری شہادت بمرض ہیضہ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزابشیر احمد ایم۔اے اپنی کتاب (سیرۃ المہدی) میں لکھتے ہیں۔ ’’خاکسار نے یہ روایت جب دوبارہ والدہ صاحبہ کے پاس برائے تصدیق بیان کی تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کو پہلا دست کھانا کھانے کے بعد آیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی اور ایک یا دو دفعہ فعہ حاجت کے لئے آپ پاخانہ تشریف لے گئے۔ تھوری دیر کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا۔ تم اب سوجاؤ۔ میں نے کہا نہیں میں دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔ مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانے نہ جا سکتے تھے۔ اس لئے چارپائی کے پاس ہی بیٹھ کر آپ فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سرچارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا اﷲ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ تو آپ نے کہا کہ یہ وہی ہے جو میں کہا کرتا تھا۔ خاکسار نے والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھ گئی تھیں کہ حضرت صاحب کا کیا منشاء ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہاں۔ تھوڑی دیر تک غرغرہ کا سلسلہ جاری رہا اور ہر آن سانسوں کے درمیان کا وقفہ لمبا ہوتا گیا۔ حتیٰ کہ آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور آپ کی روح پرواز کرگئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۰) مرزاقادیانی کی اپنی شہادت مرزاقادیانی کے خسر نواب میر ناصر فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت صاحب جس رات کو بیمار ہوئے اس رات کو میں اپنے مقام پر جاکر سوچکا تھا۔ جب آپ کو بہت تکلیف ہوئی تو مجھے جگایا