احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
میں کوئی لفظ مرزاقادیانی کے متعلق ایسا استعمال نہیں کیا۔ لیکن اسلاف نے لفظ نبی کو امتی اور غیر نبی پر استعمال کیا ہے۔ حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں۔ ’’فالنبوۃ ساریۃ الی یوم القیامۃ فی الخلق وان التشریع قد انقطع‘‘ یعنی خلف میں قیامت تک نبوت جاری رہے گی۔ لیکن نبوت شریعت قطع ہوگئی۔ کتاب البواقیت والجواہر میں جو امام شعرانی کے عقائد میں ہے۔ اس کی جلد دوم ص۳۹ میں حضرت محی الدین ابن عربی کا حوالہ دے کر یہی عقیدہ لکھا ہے۔ پھر اسی جگہ شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کا قول ’’واوتی الانبیاء اسم النبوۃ واوتینا اللقب‘‘ یعنی انبیاء کو نبوت اسماء ملی ہے اور ہمیں لقباً۔ اسی طرح مولانا روم مرشد کے متعلق فرماتے ہیں۔ او نبی وقت باشد اے مرید پھر ابن عباس ’’یؤتی الحکمۃ‘‘ کی تفسیر میں حکمت سے نبوت مراد لیتے ہیں۔ (روح المعانی ج اوّل ص۴۹) پر ایک حدیث درج ہے جہاں حضرت فرماتے ہیں جس نے ثلث حصہ قرآن پڑھا اسے ثلث نبوت ملی۔ جس نے نصف پڑھا اسے نصف جس نے دو تہائی اسے دو تہائی جس نے کل قرآن پڑھا اسے کل نبوت ملی۔ یہاں پڑھنے سے مراد تفقہ فی القرآن اور عمل بالقرآن ہے۔ اسی طرح آسیہ، ام موسیٰ، سارہ، ہاجرہ، حوا، مریم کی نبوت پر بھی بعض کا خیال ہے۔ ملاحظہ ہو۔ (روح المعانی ج اوّل ص۵۷۷) ان حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ نبی اور نبوت امتی اور غیر نبی پر بولا گیا ہے۔ یہ نبوت حقیقی نہیں۔ حقیقی نبوت ختم ہوگئی۔ اس نبوت سے مراد صرف انسان کا خدا سے بولنا ہے۔ جیسے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘ نبوت ختم ہوگئی اس کی ایک جزو یعنی مبشرات یا رویاء صادقہ، یعنی خدا کا بولنا باقی رہ گیا ہے۔ قرآن بھی اس پر شاہد ہے۔ ’’لہم البشریٰ فی الحیوٰۃ الدنیا‘‘ اسی نبوت کا نام نبوت ناقصہ، بروزی، مجازی لوگوں نے رکھا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق یہ چھیالیسواں حصہ نبوت کا ہے۔ اسی نبوت کا لقب شیخ عبدالقادر گیلانی کو ملا۔ اسی کی طرف حضرت ابن عربی نے اشارہ کیا اور اسی کے مدعی مرزاقادیانی ہیں۔ یہ دروازہ صرف امت محمدیہ پر کھلا ہے۔ اس شہر رنگون میں بعض غیر احمدی دوست ہیں۔ جن پر حسب مقدور یہ خدا کا فضل ہوتا