احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہے۔ یعنی ان کو خدا سے خبر ملتی ہے۔ والاّ اصلی اور حقیقی نبوت حضرت محمد علیہ الف الف صلوٰۃ وسلام پر ختم ہوگئی۔ اخیر میں جہاں میں مولانا بزرگ احمد صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے چند تفسیر بھیج کر مجھے مشکور فرمایا۔ میں ان سے یہ بھی عرض کرتا ہوں وہ خدا کے واسطے شہادت دیں کہ آیا جو حوالے میں نے مفسرین کے دئیے وہ درست ہیں یا نہیں اور ان کی رو سے لفظ مرسل وغیرہ غیر نبی پر اور امتی پر بولا گیا ہے یا نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس زمانہ میں جب علم مفقود ہوگیا ہے اور عام مسلمانوں میں بھی علم کا چرچا نہ رہا تو بیشک ان لفظوں سے مسلمانوں کو دھوکہ لگتا ہے۔ میں کسی کا کیوں گلہ کروں۔ خود ہمارے بھائیوں نے جو آج کل قادیان میں ہیں ان لفظوں سے دھوکہ کھایا اور مرزاقادیانی کی نبوت کو حقیقی نبوت سمجھ لیا اور انہیں نبی بنایا۔ اس وجہ سے ہم ان سے بیزار ہوگئے اور ان سے قطع تعلق کیا اور بالفاظ دیگر مرزاقادیانی نے ایسے شخص کو اور ایسے شخص کے ماننے والے کو اسلام سے خارج سمجھا جو آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا مدعی ہو۔ وہ مرزاقادیانی کے الفاظ یہ ہیں۔ جو آپ نے دہلی میں ایک اشتہار میں شائع کئے اور پھر ہزار مخلوق کے سامنے خانہ خدا میں کھڑے ہوکر دہرائے۔ وھو ہذا! ’’میں سیدنا ومولانا حضرت محمدﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ محمدﷺ پر ختم ہوگئی۔ اٰمنت باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والبعث بعد الموت واٰمنت بکتاب اﷲ العظیم القرآن الکریم‘‘ یہ ان کی تحریر ۱۸۹۲ء کی ہے اور ۱۹۰۵ء میں اس مضمون پر ان کی آخری عربی تحریر شائع ہوئی۔ ایک اشتہار مشتہرۂ منشی عبدالقادر صاحب تانبوروڈ رنگون میں درج ہے۔ جو دس دن ہوئے شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ ذیل میں لکھتا ہوں۔ نبوت تو آنحضرتﷺ پر منقطع ہوچکی ہے۔ قرآن کے بعد نہ کسی کتاب کو آنا ہے اور نہ شریعت محمدیہ کے بعد کوئی اور شریعت آسکتی ہے۔ میری نبوت جو ہے وہ ایک امر ظلی ہے۔ یعنی وہ نبوت حقیقی نہیں بلکہ نبوت کا سایہ ہے اور یہ آنحضرتﷺ کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ مجھ میں کوئی خیروبرکت نہیں مگر وہی جو اس مقدس انسان یعنی نبی کریمﷺ سے مجھے ملی ہے اور میری نبوت سے مراد خداتعالیٰ نے صرف کثرت مکالمہ رکھی ہے یعنی خدا سے بولنا اور جو اس سے زیادہ