احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
لفظ پیغمبر عربی لفظ نہیں۔ وہ آج بھی عام بول چال میں کسی پیغام رساں پر بولا جاسکتا ہے۔ بہرحال لفظ پیغمبر یا رسول یا مرسل سب کا مفہوم ایک ہے۔ یعنی قاصد بھیجا ہوا فرستادہ۔ سوال صرف یہ ہے کہ آیا کسی غیر نبی یا امتی پر لفظ مرسل بولا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ لوگ اہل علم اور تفسیروں سے واقف ۱؎ ہوتے یا ضدی نہ ہوتے تو مجھ پر یہ اعتراض نہ کرتے کہ میں نے کیوں لفظ مرسل ایک غیر نبی یا امتی پر بولا ہے۔ سورۂ یٰسین میں تین اشخاص کو خدائے تعالیٰ مرسل کہتا ہے۔ ’’اذجاء ھا المرسلون‘‘ مفسرین نے ان مرسلوں کو حواری مسیح کہا ہے۔ بعض نے ان کے نام بھی دئیے ہیں۔ مثلاً یوحنا، شمعون، منشا تھوما صدوق وغیرہ وغیرہ۔ کسی کے نزدیک کوئی یہ لوگ حواری تھے نبی نہ تھے بلکہ امتی تھے۔ لیکن خدانے قرآن میں ان کو اپنے رسول کہا ہے۔ ملاحظہ ہو (تفسیر روح المعانی ج۷ ص۲۸۲، تفسیر خازن مع المعالم ج۶ ص۴، تفسیر سواطع الالہام ص۵۲۹، تفسیر ابن عباس ص۲۷۲، مطبوعہ ازہری مصری، تفسیر جلالین ج۲ ص۷۵) ایسا ہی دیکھو (بیضاوی، کشاف، رازی، مدارک) پھر اگر سلف صالحین نے لفظ مرسل کو ایک امتی پر بولا جانا تسلیم کرلیا ہے تو پھر میں نے کیا غلطی کی ہے۔ لیکن چونکہ یہ لفظ حقیقی رسولوں اور نبی پر بھی بولا جاتا ہے۔ جو آنحضرتﷺ کے بعد نہیں آسکتے۔ اس لئے لوگوں کو غلطی سے بچانے کے لئے میں نے کتاب کے آخری دو صفحوں میں اپنا عقیدہ لکھ دیا کہ نبوت آنحضرتﷺ پر ختم ہوگئی۔ بدقسمتی سے ہم میں علم کا چرچا نہیں رہا۔ جہاں مدعیان علم کا یہ حال ہو تو دوسروں کا کیا قصور۔ اس لئے اگر بے علم بھائیوں پر ناواقفی کے باعث میرے الفاظ مرسل یا پیغامبر شاق گزرتے تو درست تھا۔ بلکہ یہ تو ان کے عزت اور محبت رسول کا نشان ہے اور مجھے بھی ان کی خاطر منظور ہے۔ مجھے اپنے بھائیوں سے نہ نفرت منظور ہے نہ کسی کی تکلیف مجھے گوارا ہے۔ اس لئے اگر وہ ان لفظوں ۲؎ سے ناراض ہیں اور ان کے دلوں پر یہ لفظ شاق گزرتے ہیں تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث یا خدا سے خبر پانے والا کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ کیونکہ کسی طرح سے مجھ کو مسلمانوں میں نفرت اور نفاق منظور نہیں۔ میں نے عمر بھر ۱؎ الحمدﷲ ہمارے علماء علم تفسیر سے خوب واقف ہیں۔ آپ کی طرح بے زائدہ ورق گردانی کا نام علم تفسیر کی واقفیت نہیں ہے۔ چنانچہ عنقریب آپ کو معلوم ہوگا۔ ۲؎ خواجہ صاحب صرف یہ الفاظ نہیں بلکہ آپ نے اور خود مرزاقادیانی نے اپنے اوصاف رسالت بلکہ اس سے بالا تر ثابت کئے ہیں۔ جیسا کہ آپ کو بارہا لکھا گیا۔