احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
صاحب کے اجتہاد کو دوسروں پر ترجیح ۱؎ دیتا ہوں۔ میں اہل قبلہ ہوں۔ کلمہ گوہوں مسلمانوں کا ذبیحہ کھاتا ہوں۔ معراج لیلتہ القدر اور معجزات آنحضرتﷺ اور دیگر انبیاء مندرجہ قرآن پر ایمان رکھتا ہوں۔ فقط! آج میرے ہاتھ میں ایک مقدس کام ہے۔ جس کی کامیابی پر مسلمانوں کی آئندہ فلاح بہت حد تک منحصر ہے۔ میں نے ہزاروں روپیہ اس پر خرچ کئے۔ ابھی گزشتہ دسمبر میں ووکنگ مشن کے متعلق ایک مستقل مشنری فنڈ کھولنے کے لئے میں نے تین ہزار روپیہ دیا۔ میں اس کارخیر کی طرف آپ کو بھی بلاتا ہوں۔ اگر میرے ان عقائد پر آپ مجھے مسلمان سمجھتے ہیں تو بسم اﷲ اور اگر اس تحریر کے بعد آپ کو میرے اسلام پر شبہ ہے پھر آپ پر حرام ہے کہ مجھے اشاعت اسلام کے لئے ایک کوڑی دو۔ بس میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ یہ امر صحیح ہے کہ میں نے ایک کتاب صحیفہ آصفیہ ۱۹۰۹ء میں لکھی تھی۔ جس میں میں نے لفظ مرسل یا پیغامبر قادیان جناب مرزاقادیانی کے متعلق لکھے۔ جس کی بناء پر یہاں کے بعض شخص یہ زور دیتے ہیں کہ میں جناب مرزاقادیانی کو نبی مانتا ہوں۔ اگر ایسا کہنے والے ایمان اور دیانت سے کام لیتے تو ان کا فرض تھا کہ وہ صحیفہ آصفیہ کے آخری دو صفحہ بھی مسلمان بھائیوں کو پڑھ کر سنادیتے۔ جہاں میں نے اپنا ایمان کھول کر بیان کیا ہے کہ حضرت محمدﷺ خیرالرسل اور خیرالانام ہیں اور ان پر ہر قسم کی نبوت ختم ہوچکی ہے۔ جب میں نے اس کتاب کے خاتمہ پر اپنے ایمان کا خلاصہ لکھ دیا اور آنحضرتﷺ پر ختم نبوت کا اقرار کردیا تو پھر یہ کس قدر خیانت ہے کہ میری کتاب کا ایک آدھ فقرہ لوگوں کوسنادیا جائے اور میرے متعلق وہ باتیں منسوب کی جائیں جس کے خلاف میرا ایمان کتاب میں درج ہے۔ سوال یہ ہوسکتا ہے کہ جب میں صحیفہ آصفیہ میں ختم نبوت کا قائل ہوں تو پھر میں نے کیوں آنحضرتﷺ کے بعد ایک امتی کے متعلق خواہ وہ مرزاقادیانی ہوں یا کوئی اور۔ لفظ مرسل یا رسول یا پیغامبر استعمال کیا۔ یہ سوال ان کی طرف سے تو ہوسکتا ہے جو اہل ۲؎ علم نہیں۔ لیکن اگر ایک ذی علم یہ اعتراض کرتا ہے تو یا تو وہ خلق خدا کو دھوکہ دیتا ہے یا وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اہل علم سے نہیں۔ ۱؎ خواجہ صاحب کیوں اپنے منہ سے اتنا بڑا دعویٰ کرتے ہو۔ جو شخص عربی زبان نہ جانے، چاروں مذہب کے فقہ پر کجا، فقہ حنفی پر بھی نظر نہ رکھتا ہو وہ کیا ترجیح دے گا۔ خواجہ صاحب کو یہ بھی خبر نہیں کہ اصحاب ترجیح ایک طبقہ ہے مجتہدین میں سے۔ ۲؎ خواجہ صاحب نے خود اپنے دھوکہ دہی کا اقرار کرلیا۔ کیونکہ ان کو تسلیم ہے کہ جو اہل علم نہیں وہ اس اختلاف بیانی سے شک میں پڑیںگے اور ظاہر ہے کہ صحیفہ آصفیہ جواردو کی ایک معمولی کتاب ہے۔ اہل علم کے لئے نہیں لکھی گئی۔