احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ’’لم یبق من النبوۃ الا المبشرات‘‘ یعنی نبوت کے مختلف اجزاء ہیں۔ ان میں سے صرف ایک جزو مبشرات یعنی رویائے صالح جاری رہیںگے۔ رویائے صالح چھیالیسواں حصہ نبوت کا آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے۔ اس قسم کے مکالمہ مخاطبہ کے مدعی ہمیشہ امت مرحومہ میں ہوتے رہے ہیں۔ مرزاقادیانی سے پہلے بھی بعض نے ایسا دعویٰ کیا ہے۔ اسی قسم کے مدعی مرزاقادیانی ہیں۔ اسی کا نام وہ جزوی، بروزی نبوت رکھتے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں حقیقی معنوں میں نبی یا مرسل نہیں ہوں۔ بلکہ مجازی طور پر ہوں۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے اپنی ایک آخری تصنیف میں ایک استفتاء کیا ہے اور اسے اپنی کتاب حقیقت الوحی کے ساتھ بطور ضمیمہ لگایا ہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔ ’’والنبوۃ قد انقطعت بعد نبیناﷺ ولا کتاب بعد الفرقان الذی ھو خیر الصحف السابقۃ۰ ولا شریعۃ بعد الشریعۃ المحمدیۃ۰ بید انی سمیت نبیا علی لسان خیر البریۃ۰ وذلک امر ظلی من برکات المتابعۃ وما اریٰ فی نفسی خیراً وجدت کلما وجدت من ہذہ النفس المقدسۃ وما عنی اﷲ من نبوتی الاکثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ ولعنۃ اﷲ علی من اراد فوق ذلک اوحسب نفسہ شیئاً اواخرج عنقہ من الربقۃ النبویۃ۰ وان رسولنا خاتم النبیین علیہ انقطعت سلسلۃ المرسلین فلیس حق اجد ان یدعی النبوۃ بعد رسولنا المصطفیٰ علی الطریقۃ المستقلۃ وما بقی بعد الا کثرۃ المکالمۃ وھو بشرط الاتباع لا غیر متابعۃ خیر البریۃ وواﷲ ماحصل لی ہذا المقام الا من انوار اتباع الاشعۃ المصطفویۃ وسمیت نبیا من اﷲ علی طریق المجاز لا علی وجہ الحقیقۃ‘‘ (الاستفتاء ملحقہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۸۹) اس عبارت کا مطلب یہ ہے یعنی مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: نبوت تو آنحضرتﷺ کے بعد منقطع ہوچکی ہے۔ قرآن کے بعد نہ کسی کتاب کا آنا ہے اور نہ شریعت محمدیہ کے بعد کوئی اور شریعت آسکتی ہے۔ میری نبوت جو ہے وہ ایک امر ظلی ہے۔ یعنی وہ نبوت حقیقی نہیں۔ بلکہ نبوت کا سایہ ہے اور یہ آنحضرتﷺ کی اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ مجھ میں کوئی خیر وبرکت نہیں۔ مگر وہی جو اس مقدس انسان یعنی آنحضرتﷺ سے مجھے ملی ہے اور میری نبوت سے مراد خداتعالیٰ نے صرف کثرت مکالمہ رکھی ہے۔ یعنی خدا سے بولنا اور جو اس سے زیادہ ذرا بھی ارادہ کرے اس