احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مرزاقادیانی کا یہ قول نہایت صاف طور سے یہ کہہ رہا ہے کہ یہ وعدہ یعنی احمد بیگ کے داماد کے مرنے کا وعدہ ان جھوٹے وعدوں میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ سچا وعدہ ہے۔ بہرحال اس کا پورا ہونا ضرور ہے۔ اب اس بات کا جواب ملاحظہ کرو کہ اس کا داماد توبہ اور رجوع کی وجہ سے بچ گیا یا مرزاقادیانی اس کہنے میں بھی جھوٹے ہیں؟ تعریف تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی ہی کی تحریر سے یہ قول بھی جھوٹا ہوجاتا ہے۔ اپریل ۱۸۹۲ء میں مرزااحمد بیگ نے اپنی لڑکی کی شادی (یعنی مرزاقادیانی کی محبوبہ کی) سلطان محمد بیگ سے کردی اور ڈھائی برس تک یعنی ستمبر ۱۸۹۴ء تک اس کا داماد سلطان محمد بیگ مطابق پیش گوئی مرزاقادیانی کے نہیں مرا۔ تب پھر مرزاقادیانی نے ۱۸۹۷ء میں دوسری پیش گوئی اس کی موت کی۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں اور الہام بھی ان کا نقل کر چکا ہوں۔ جس ’’انجام آتھم‘‘ میں اس کی موت کی دوسری پیش گوئی درج ہے۔ اسی (انجام آتھم ص۲۲۴، خزائن ج۱۱ ص۲۲۴) میں یعنی شادی ہونے کے پانچ برس بعد اور مرزاقادیانی کی پہلی پیش گوئی جھوٹی ہونے کے ڈھائی برس کے بعد یوں تحریر کرتے ہیں۔ ’’من می بینم کہ اوشاں سوئے عاد تہائے پیش میل کردہ اند ودلہاے شان سخت شد چنانکہ عادت جاہلان است وایام خوف را فراموش کردند وسویٔ زیادتی وتکذیب عود نمود ندپس عنقریب امر خدا برا بشان نازل خواہد شدچون خواہد دید کہ ایشان درغلو زیادت کردند۔‘‘ مرزاقادیانی کی اس عبارت سے روشن ہورہا ہے کہ اس کا داماد مرزاقادیانی کی تکذیب میں زیادتی کرنے لگا۔ پہلے سے زیادہ سخت ہوگیا۔ اس لئے اس پر عذاب آوے گا۔ مرزاقادیانی کی تحریر پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس نے توبہ اور رجوع نہیں کی تھی۔ ۱… کیونکہ اگر خوف کی وجہ سے توبہ اور رجوع کرتا اور مرزاقادیانی کو بزرگ مان لیتا اور اس کے پاس عاجزی کا خط لکھواتا تو پھر تکذیب میں زیادتی کرنے کے کیا معنی؟ ۲… اگر اس کا داماد خوف کی وجہ سے توبہ اور رجوع کرتا اور مرزاقادیانی کے پاس خط لکھواتا یا لکھتا تو اپنی عادت کے بموجب مرزاقادیانی معترضین کو ساکت کرنے کے لئے اس کے خط کو موٹے موٹے حرفوں میں لکھ کر تمام دنیا میں شائع کر دیتے۔ مگر شائع نہیں کیا۔ اس سے بخوبی سمجھا جاتا ہے کہ جب مرزاقادیانی پر اعتراضات کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور مرزاقادیانی بغل جھانکنے لگے تو محض دروغگوئی سے یہ کہہ دیا کہ توبہ اور رجوع کی وجہ سے زندہ رہ گیا۔ اس پر نہ کوئی تحریر ثبوت لائق اعتبار ہے اور