احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
معین ہوچکا ہے وہ ہر طرح انہیں کرنا ضرور ہے۔ وہ کریںگے۔ خلق انہیں تکلیف دے اور ان کی سنے یا نہ سنے۔ بہرحال اس علامت کا پایا جانا مرزاقادیانی ضروری بتاتے ہیں اور خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر اس سات برس کی مدت میں ان باتوں کا ظہور نہ ہو تو میں اپنے تئیں جھوٹا خیال کرلوںگا۔ مرزاقادیانی کا یہ قول ۲۲؍جنوری ۱۸۹۷ء کا ہے۔ اس کے بعد پورے گیارہ برس زندہ رہے۔ اب ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ساتھ برس کیا گیارہ برس میں بھی ان علامتوں کا نشان بھی نہیں پایا گیا۔ اے عزیز! تم بھی آنکھیں کھول کر دیکھو کہ اسلام کی خدمت میں ان کا کیا اثر نمایاں ہوا؟ ان کی وجہ سے کتنے آریہ اور عیسائی وغیرہ ایمان لائے؟ کون سا جھوٹا دین ان کی وجہ سے مردہ ہوا؟ دنیا نے کون سی اچھی رنگت پکڑی؟ یہ تو نہایت ظاہر ہے کہ یہ کچھ نہیں ہوا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم انہیں جھوٹا خیال نہیں کرتے اور اپنی عاقبت برباد کر رہے ہو۔ کیا تمہیں اب بھی خیال نہ ہوگا کہ مرزاقادیانی کی صداقت کے ثبوت میں جو آیتیں پیش کی گئی ہیں۔ وہ تمہیں اور عوام کو دھوکا دیا گیا ہے۔ بھلا ایسے جھوٹے شخص کی صداقت قرآن شریف میں ہوسکتی ہے؟ جس کا جھوٹا ہونا خود اس کے متعدد اقراروں سے ظاہر ہو۔ تم اس کا یقین کرو کہ مسیح موعود کی جو علامتیں حدیث میں آئی ہیں اور حقانی علماء نے لکھی ہیں وہ مرزاقادیانی میں ہرگز نہیں پائی گئیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس نے ان کی زبان سے اس کا فیصلہ کر دیا۔ اس کے بعد بھی مرزاقادیانی کو سچا نبی اور مسیح موعود مانتے رہنا کس قدر بے ایمانی اور بددیانتی کی بات ہے۔ کیونکہ مرزاقادیانی میں وہ حالت نہیں پائی گئی جو مسیح موعود کے لئے حدیثوں میں آئی ہے اور وہ خود بتلارہے ہیں۔ بلکہ مطابق اپنے پختہ اقرار کے جھوٹے ثابت ہوگئے۔ غرضکہ اس نونمبر میں اچھی طرح سے دکھلادیا گیا کہ مرزاقادیانی مطابق معیار قرآن مجید وحدیث کے اور اپنے قول وفعل اور اقرار سے مسیح کاذب ثابت ہو رہے ہیں۔ پھر ایسے مسیح کاذب کو مسیح صادق کہے جانا ’’ختم ۱؎ اﷲ علیٰ قلوبہم‘‘ کی نشانی نہیں ہے تو کیا ہے۔ یہی لاجواب اعتراضات مرزاقادیانی پر کئے گئے ہیں اور مرزائی جماعت ان کے جواب سے عاجز ہے۔ اس لئے ایک خواب کو پیش کر کے عوام کو دھوکا دینا چاہتی ہے۔ تمہاری تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو خواب حضرت ابواحمد رحمانی مدفیضہم نے دیکھا تھا اور جس کو تم گندگی سے تعبیر کرتے ہو اور مصنف اسرار نہانی نے اپنی تمام کتاب میں اسی جملہ کے ۱؎ یعنی جنہوں نے سچی بات کو نہ مانا اور اپنے جھوٹے مذہب پر اڑے رہے اور ان کی نسبت اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی ہے۔ یہ حق بات کبھی نہ مانیںگے۔