احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
احمد بیگ کا داماد میرے روبرو مر جائے گا اور اس کی بیوی میرے نکاح میں آجائے گی) تو اس دن نہایت صفائی سے (مخالفوں کی) ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سورؤں کی طرح کر دیںگے۔ اے عزیز! اب تو وہ باتیں پوری نہ ہوئیں۔ اب کس کے منحوس چہرے بندروں اور سورؤں کی طرح ہوئے۔ مرزاقادیانی تو مرگئے۔ قبر میں انہیں کون دیکھے۔ اب تو ان کے ماننے والے موجود ہیں۔ اس سخت کلامی کے مصداق وہی ہوںگے۔ نہایت افسوس ہے کہ تم بھی انہیں میں شامل ہونا چاہتے ہو۔ یہ سخت کلامی تو صرف ان کے ایک رسالہ کے ایک مقام سے دکھائی گئی اور دوسرے مقامات پر بہت کچھ سخت کلامی ہے اور مولوی ثناء اﷲ صاحب ومولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی وغیرہ وغیرہ کو گالیاں دیتے رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو بڑے مرتبہ کے نبی ہیں۔ مرزاقادیانی نے ان کی شان میں کیا کیا نہ کہا۔ جس کے سننے سے ہر مسلمان کا دل دہل جاتا ہے۔ (ضمیمہ انجام آتھم ، خزائن ج۱۱ ص۳۴۰) یہ کیوں ہوا۔ کیا مرزاقادیانی کو آیات قرآنی واحادیث نسیا منسیاً ہوگئیں تھیں۔ پھر یہ کہ اپنے تحریرات کا بھی خیال نہ رہا۔ بالفرض اگر مولوی عبدالحق صاحب وغیرہ نے مرزاقادیانی کو گالیاں دی تھیں۔ تو مرزاقادیانی کو سعادت کے آثار، جوانمردی کا طریقہ، صبر جس کا نتیجہ دشمنوں کا شرمندہ ہوکر فضیلت کا قائل ہوجانا تھا اور مؤمن کی صفت اختیار کرنا چاہتا تھا نہ کہ گالی کے عوض گالی دے کر وہی کت پن کی مثال اپنے اوپر صادق کرنا لازم تھا۔ پھر مرزاقادیانی (کتاب البریہ ص۱۵، خزائن ج۱۳ ص۱۵) میں تحریر کرتے ہیں۔ اے دوستو! اس اصول کو محکم پکڑو اور ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔ نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ طریقہ اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالف کی گالیوں اور سخت گوئیوں پر صبر نہ کرسکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت سے چارہ جوئی کرے۔ مگر یہ مناسب نہیں کہ سختی کے مقابل میں سختی کر کے کسی مفسدہ کو پیدا کریں۔ یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کردی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے۔ مرزاقادیانی ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی وبردباری سے پیش آنے کی نصیحت کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے عقل بڑھے گی۔ گہرے خیال پیدا ہوںگے۔ پھر مرزاقادیانی نے مخالف کی گالیوں پر کیوں نہیں صبر کیا۔ نرمی اور بردباری کو چھوڑ کر ایسی سخت کلامی کیوں کی اور خود جماعت