احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
الجواب ۱… اس آیت میں صرف ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو نزول مسیح کے بعد ان پر ایمان لائیںگے۔ جیسا کہ الفاظ ’’لیؤمنن بہ‘‘ سے ظاہر ہے۔ ۲… صیغہ مضارع مؤکد بہ نون ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے۔ (مرزائی پاکٹ بک ص۵۰۲، ۱۹۳۲ئ) ’’وان من اہل الکتاب احد الا لیؤمنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ وہم اہل الکتاب الذین یکونون فی زمانہ فتکون ملۃ واحدۃ وھی ملۃ الاسلام وبہذا جزم ابن عباس فیما رواہ ۱؎ ابن جریر من طریق سعید ابن جبیر عنہ باسناد صحیح‘‘ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری) یعنی حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسلام لائیںگے۔ اعتراض ابن جریر میں سعید بن جبیر کے طریق سے صرف دو روایات درج ہیں۔ پہلی روایت میں محمد ابن بشار ضعیف ہے۔ کیونکہ (تہذیب التہذیب ج۹ ص۸۱) میں لکھا ہے کہ عبداﷲ بن محمد بن سیار کہتے ہیں کہ عمر بن علی نے حلف اٹھا کر کہا کہ محمد بن بشار بندار یحییٰ کی روایت میں جھوٹ بولتا تھا۔ اسی طرح علی بن المدینی نے محمد بشار کی ابن مہدی والی روایت کو غلط کہا۔ یحییٰ اور واریری بھی اسے پسند نہ کرتے تھے۔ (مرزائی پاکٹ بک ص۳۹۶،۳۹۷، ۱۹۴۵ئ) الجواب ’’کسی کے محض یہ کہہ دینے سے کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور حقیقت وہ راوی ناقابل اعتبار نہیں ہوجاتا۔ جب تک اس کی تضعیف کو کوئی معقول وجہ نہ ہو۔ کیونکہ اس امر میں اختلاف یسیر موجود ہے۔‘‘ (مرزائی پاکٹ بک ص۴۸۲، ۱۹۴۵ئ) محمد ابن بشار البصری بندار کی تضعیف میں مرزائیوں نے انتہائی دھوکہ سے کام لیا ہے۔ یہ راوی تو ایسا جلیل القدر ہے کہ ساری کتب صحاح ستہ اس کی احادیث سے پر ہیں۔ چنانچہ (تہذیب التہذیب ج۹ ص۷۲،۷۳) میں لکھا ہے کہ امام بخاری نے اس راوی سے دو صد ۱؎ ’’ابن جریر جو نہایت معتبراور آئمہ حدیث میں سے ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۵۰ حاشیہ، خزائن ج۲۳ ص۲۶۱)