احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
گیا۔ جب میں حضرت صاحب کے پاس پہنچا تو آپ کا حال دیکھا تو آپ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ میرصاحب مجھے وبائی ہیضہ ہوگیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے کوئی ایسی بات میرے خیال میں نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ دوسرے روز دس بجے کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا۔‘‘ (رسالہ حیات نواب میرناصر ص۱۴) اس آسمانی شکست کے بعد بھی مرزائیوں کو صبر نہ آیا تو خداتعالیٰ نے زمینی شکست بھی دے دی۔ وہ اس طرح کہ مرزائیوں نے اپریل ۱۹۱۲ء کو شہر لدھیانہ میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کو تین صد روپیہ کا انعامی چیلنج بابت آخری فیصلہ دے دیا۔ فریقین کی منظوری سے سردار گوربچن سنگھ پلیڈر کو ثالث مقرر کیاگیا۔ جس میں مرزائی مناظر میرقاسم علی کو شکست فاش ہوئی اور مولوی ثناء اﷲ صاحب تین صدرروپیہ انعام لے کر فاتح قادیان بن کر امرتسر واپس آئے۔ ’’قانون قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت دل مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے۔ سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کر لیتے ہیں۔‘‘ (استفتاء اردو ص۷،۸، حاشیہ، خزائن ج۱۲ ص۱۱۶) ان پے درپے شکستوں کے بعد مرزائیوںکو خدا سے توبہ کرنی چاہئے کہ ایک دن اس خالق حقیقی کو منہ دکھانا ہے۔ مرزائی عذر ’’آخری فیصلہ اگر محض دعا ہوتی تو نہ ٹلتی۔ وہ دعائے مباہلہ تھی۔‘‘ (احمدیہ پاکٹ بک ص۸۴۰، ۱۹۴۵ئ) الجواب آخری فیصلہ مباہلہ ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ محض دعا تھی اور محض دعا میں دوسرے فریق کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ آخری فیصلہ مباہلہ اس لئے نہیں کہلا سکتا کہ مرزاقادیانی اس سے کئی ماہ قبل رسم مباہلہ کو ختم کرچکے تھے۔ جیسا کہ وہ خود ہی لکھتے ہیں۔ ’’سلسلہ مباہلات جس کے بہت نمونے دنیا نے دیکھ لئے ہیں میں کافی مقدار دیکھنے کے بعد رسم مباہلہ کو اپنی طرف سے ختم کرچکا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۷۱) یہ تحریر جولائی ۱۹۰۶ء کی ہے۔ جیسا کہ (حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۱) پر اس کی وضاحت ہے۔ حالانکہ اشتہار آخری فیصلہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کا ہے۔ پس آخری فیصلہ کو مباہلہ کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔ اس آسمانی شکست کے بعد بھی مرزائیوں کو صبر نہ آیا تو خداتعالیٰ نے زمینی شکست بھی دے دی۔ وہ اس طرح کہ مرزائیوں نے اپریل ۱۹۱۲ء کو شہر لدھیانہ میں مولوی ثناء اﷲ صاحب کو تین صد روپیہ کا انعامی چیلنج بابت آخری فیصلہ دے دیا۔ فریقین کی منظوری سے سردار گوربچن سنگھ پلیڈر کو ثالث مقرر کیاگیا۔ جس میں مرزائی مناظر میرقاسم علی کو شکست فاش ہوئی اور مولوی ثناء اﷲ صاحب تین صدرروپیہ انعام لے کر فاتح قادیان بن کر امرتسر واپس آئے۔ ’’قانون قدرت صاف گواہی دیتا ہے کہ خدا کا یہ فعل بھی ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا اور سخت دل مجرموں کی سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے۔ سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کر لیتے ہیں۔‘‘ (استفتاء اردو ص۷،۸، حاشیہ، خزائن ج۱۲ ص۱۱۶) ان پے درپے شکستوں کے بعد مرزائیوںکو خدا سے توبہ کرنی چاہئے کہ ایک دن اس خالق حقیقی کو منہ دکھانا ہے۔ مرزائی عذر ’’آخری فیصلہ اگر محض دعا ہوتی تو نہ ٹلتی۔ وہ دعائے مباہلہ تھی۔‘‘ (احمدیہ پاکٹ بک ص۸۴۰، ۱۹۴۵ئ) الجواب آخری فیصلہ مباہلہ ہرگز نہیں تھا۔ بلکہ محض دعا تھی اور محض دعا میں دوسرے فریق کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ آخری فیصلہ مباہلہ اس لئے نہیں کہلا سکتا کہ مرزاقادیانی اس سے کئی ماہ قبل رسم مباہلہ کو ختم کرچکے تھے۔ جیسا کہ وہ خود ہی لکھتے ہیں۔ ’’سلسلہ مباہلات جس کے بہت نمونے دنیا نے دیکھ لئے ہیں میں کافی مقدار دیکھنے کے بعد رسم مباہلہ کو اپنی طرف سے ختم کرچکا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۷۱) یہ تحریر جولائی ۱۹۰۶ء کی ہے۔ جیسا کہ (حقیقت الوحی ص۶۷، خزائن ج۲۲ ص۷۱) پر اس کی وضاحت ہے۔ حالانکہ اشتہار آخری فیصلہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کا ہے۔ پس آخری فیصلہ کو مباہلہ کہنا آنکھوں میں دھول جھونکنا ہے۔