احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
دوسری چالاکی یہ کی کہ اصل پیش گوئی میں بیوہ کا ذکر نہیں تھا۔ لیکن اس تحریر کے وقت اس عورت کا دوسری جگہ نکاح ہو چکا تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی نے پیش گوئی کے ایک حصہ باکرہ کو ہضم کر کے صرف بیوہ والا حصہ ظاہر کیا۔ یہ تھیں مرزاقادیانی کی چالیں، بہرحال مرزاقادیانی کی ان دھمکی آمیز پیش گوئیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فریق ثانی نے محمدی بیگم کو مورخہ ۱۷؍اپریل ۱۸۹۲ء کو مرزاسلطان محمد ساکن پٹی سے بیاہ دیا۔ (آئینہ کمالات ص۲۸۰، خزائن ج۵ ص۲۸۰) اور مرزاقادیانی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ مزید سنئے: ’’نفس پیش گوئی یعنی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے۔ ’’لاتبدیل لکلمات اﷲ‘‘ یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خدا کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘ (اشتہار مرزا مورخہ ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ئ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۴۳) مرزائی عذر تقدیر مبرم بھی ٹل جاتی ہے اور اس میں بھی شرط ہوتی ہے۔ الجواب یہ سب غلط ہے۔ ہم اس وقت مرزاقادیانی کے الہامات پر بحث کر رہے ہیں۔ پس اس معاملہ میں تقدیر مبرم کی تشریح جو مرزاقادیانی نے کی ہوگی۔ فیصلہ بھی اسی پر ہوگا۔ ملاحظہ ہو۔ مرزاقادیانی کیا فرماتے ہیں۔ ۱… ’’گوبظاہر کوئی وعید کی پیش گوئی شرط سے خالی ہو۔ مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر شرط ہوتی ہے۔ بجز ایسے الہام کے جس میں یہ ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی شروط نہیں۔ پس ایسی صورت میں وہ قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے اور تقدیر مبرم قرار پاتا ہے۔‘‘ (انجام آتھم ص۱۰ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۱۰) ۲… ’’اس آیت کا مدعا تو یہ ہے کہ جب تقدیر مبرم آجاتی ہے تو ٹل نہیں سکتی۔‘‘ (اشتہار انعامی تین ہزار ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۷۴) ۳… ’’تقدیر مبرم تو ان لوگوں کی دعاء سے بھی نہیں ٹلتی۔ جن کی زبان ہر وقت خدا کی زبان ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۶،۱۷، خزائن ج۲۲ ص۲۰،۲۱)