احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
قرآن شریف میں ارشاد ہے: ’’ولا تنکحوا لمشرکات حتیٰ یؤمن ولامۃ مومنۃ خیر من مشرکۃ ولوا عجبتکم ولا تنکھوا المشرکین حتیٰ یؤمنوا ولعبد مومن خیر من مشرک ولوا عجبکم اولئک یدعون الیٰ النار واﷲ بدعوا الیٰ الجنۃ والمغفرۃ باذنہ ویبین اٰیاتہ للناس لعلہم یتذکرون (بقرۃ:۲۷۵)‘‘ {مشرکہ یعنی کافرہ عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لاویں نکاح نہ کرو۔ اگرچہ وہ بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہوں اور مشرکوں یعنی کافروں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو۔ مسلمان غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے۔ اگرچہ بظاہر تمہیں (دنیاوی اعتبار سے) مشرکین اچھے معلوم ہوتے ہوں۔ یہ لوگ تو جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے۔ خدا لوگوں کے لئے اپنی آیتوں کو بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔} اس آیت میں صاف یہ حکم فرمایا گیا ہے کہ مشرکوں سے یعنی کافروں سے نکاح نہ کرو۔ کیونکہ یہ مشرکین یعنی کفار جہنم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ پس شب وروز کی صحبت میں اپنے عقائد کفریہ سے اس کے خیال کو بدل کر جہنم کا مستحق بنادیںگے۔ اس جگہ ایک بات سمجھ لینے کی یہ ہے کہ قرآن شریف میں یہاں لفظ مشرک لغوی معنی میں استعمال نہیں کیاگیا ہے۔ بلکہ شرعی معنی میں اور شریعت کی اصطلاح میں ہرکافر کومشرک کہا جاتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج دوم ص۳۴۰) میں ہے۔ ’’قال الجبائی والقاضی ہذا الاسم من جملۃ الاسماء الشریعۃ واحتجا علی ذلک بانہ قد تواتر النقل عن الرسول علیہ الصلوٰۃ والسلام انہ کان یسمی کل من کان کافرا بالمشرک‘‘ {جبائی اور قاضی کا قول ہے کہ یہ لفظ اسماء شرعیہ سے ہے۔ یعنی لغوی معنی مراد نہیں ہے۔ انہوں نے دلیل اس پر یہ بیان کی ہے کہ جناب نبی کریمﷺ سے حدیث متواتر اس کے متعلق مروی ہے کہ حضورﷺ ہر کافر کو مشرک فرماتے تھے۔} اسی طرح (تفسیر نیشاپوری جلد دوم ص۳۱۹) میں مختلف توجیہات کے بعد مذکور ہے کہ: ’’بل یجب اندراج کل کافر تحت ہذا الاسم لا سیما قد تواتر النقل عن النبیﷺ بانہ یسمی کل من کان کافرابانہ مشرک‘‘ {اس لفظ مشرک کے تحت میں ہر کافر کا داخل کرنا واجب ہے۔ اس لئے کہ جناب نبی کریمﷺ سے بتواتر مروی ہے کہ آپ ہر کافر کو مشرک فرماتے تھے۔}