احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
شارح مسلم امام نووی اور ان کے علاوہ اور بہت محدثین کا بھی خیال ہے کہ مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میںمقام محمود کی تفسیر مقام شفاعت کی گئی ہے۔ اگرچہ اطلاق ظاہری اور معنی لغوی کے اعتبار سے مقام محمود کا لفظ ہرمقام کرامت کو شامل ہے۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں ہے۔ ’’وہو مطلق فی کل مقام یتضمن کرامتہ والمشہور ہو مقام الشفاعۃ‘‘ یعنی لفظ مقام محمود مطلق ہے اور ہر ایسے مقام کوجو کرامت پر مشتمل ہومقام محمود کہہ سکتے ہیں۔ مگر مشہور یہ ہے کہ اس سے مراد مقام شفاعت ہے۔ اس بناء پر آیت کے معنی یہ ہوئے کہ خدا آپ کو مقام محمود میں قیامت کے دن اٹھا کر جگہ دے گا۔ یعنی قیامت کے دن آپ کو ایسی جگہ بارگاہ خداوندی سے ملے گی جس کے متعلق خدا کا ارشاد ہے کہ وہ مقام حمد اور سب لوگوں کی تعریف وتحسین کے لائق ہوگا اور وہ جگہ اپنی کرامت کے اعتبار سے جملہ اماکن اور مقام سے محمود ہوگی۔ جس کی حقیقت کو انسان نہ پہنچ سکتا ہے نہ اس کی کیفیت بیان کرسکتا ہے۔ جبکہ الہام الٰہی میں خود خدا نے اس مقام کو محمود کہا ہے اور قابل ستائش فرمایا ہے۔ دوسرے مقام میں ارشاد خداوندی ہے۔ ’’ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ‘‘ {عنقریب تجھ کو خدا دے گا پھر تو خوش ہو جائے گا۔} اکثر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ اس موقع پر بھی شفاعت ہی مراد ہے۔ امام فخر الدین رازیؒ اس مقام پر تحریر فرماتے ہیں۔ ’’فالمروی عن علی ابن ابی طالب وابن عباس ان ہذا ہوا الشفاعۃ فی الامۃ یروی انہ علیہ السلام لما نزلت ہذہ الآیۃ قال اذالارض وواحد من امتی فی النار (تفسیر کبر ج۸ ص۵۹۹)‘‘ {حضرت علیؓ اور ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اس بخشش وعطاء سے امت کی شفاعت مراد ہے۔ یعنی خدا آپ کی شفاعت پر اس قدر امت عاصی کی بخشش فرمائے گا کہ آپ راضی اور خوش ہو جائیںگے اور آنحضرتﷺ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز خوش نہ ہوںگا جب تک میرا ایک امتی بھی دوزخ میں رہے گا۔} اس کے بعد امام رازیؒ بڑے زور سے لکھتے ہیں۔ ’’واعلم ان الحمل علی الشفاعۃ‘‘ یہاں شفاعت کے معنی متعین ہیں اور کسی دوسرے معنی کی گنجائش نہیں۔ شفاعت اگرچہ قرآن شریف سے صاف طور پر ثابت ہوچکی۔ مگر حدیثوں میں بھی اس کا بیان نہایت صراحت سے کیاگیا ہے اور اس کی تمام صورتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خود صحاح میں اس کے متعلق بہت ہی روایتیں موجود ہیں جن میں سے چند روایتیں نقل کرتا ہوں۔