احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں۔ ’’ای من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً فی اللباس وغیرہ فہو منہم‘‘ {یعنی جس نے اپنے کو کافروں کی مشابہ لباس وغیرہ میں بنایا وہ انہیں میں شمار کیا جائے گا۔} یہی رائے علامہ شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلویؒ کی ہے۔ لمعات میں فرماتے ہیں۔ ’’والمتعارف فی التشبہ ھو التلبیس بلباس قوم‘‘ {تشبیہ اس کو کہتے ہیں کہ کسی قسم کا لباس پہنے۔} اور اسی تشبہ کو جناب رسول اﷲﷺ صاف طور سے منع فرمارہے ہیں اور اس کا انجام ایسے عنوان اور ایسے عام لفظ سے فرماتے ہیں جو نہایت خطرناک ہے۔ کیونکہ ارشاد ہے۔ ’’فہو منہم‘‘ جس کے صاف معنی تو یہی ہیں کہ وہ انہیں کافروں میں سے ہے۔ اس کا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا۔ اب خیال کیا جائے کہ اس تشبہ کا انجام کیا ہوگا۔اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے یہود ونصاریٰ کی مشابہت کرنے کو منع فرمایا ہے۔ چند حدیثیں اور نقل کرتا ہوں۔ ابن حمزہ شرح بخاری شریف میں لکھتے ہیں۔ ’’نہی النبیﷺ عن التشبہ باہل الکتاب۰ لیس منا من تشبہ بغیرنا لا تشبہو بالیہود ولا بالنصاریٰ (جامع ترمذی)‘‘ {یعنی منع فرمایا آنحضرتﷺ نے اہل کتاب یہودی اور انگریزوں کی مشابہت سے۔ فرمایا رسول اﷲﷺ نے میری امت سے وہ شخص نہیں ہے جو غیر قوم کی مشابہت اختیار کرے۔ یہود ونصاریٰ کی مشابہت مت کرو۔} اس حدیث میں عام تشبہ کو منع کرنے کے بعد خاص طور سے یہود ونصاریٰ کی تشبہ کو منع فرمایا۔ جس سے اس کی تاکید زیادہ ثابت ہوتی ہے۔ بخاری ومسلم میں بھی اس مضمون کی حدیثیں ہیں اور ان کے علاوہ اور بہت سی حدیثیں جن میں صاف صاف حضرت رسالت پناہﷺ کا حکم ہے۔ مشرکین، منافقین، مجوسین، یہود ونصاریٰ کی وضع وقطع وسلام وکلام میںمخالفت کی جائے۔ ایسے صاف وصریح ارشادات نبوی کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کو زیبا نہیں ہے کہ انگریز یا کسی دوسری قوم کی وضع اختیار کرے۔ محبت رسول پاک کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو لباس حضورﷺ کو پسند تھا وہی لباس اختیار کیا جائے اور اگر کسی وجہ سے مسنون ومستحب لباس نہیں پہن سکتا ہے تو تقاضائے ایمان سے اتنا تو ضرور ہونا چاہئے کہ غیر قوم خصوصاً دشمنان اسلام کی وضع اور لباس کے اختیار کرنے سے بچے۔ جس کو حضور اکرمﷺ نے صاف صاف اور مختلف طریقیوں سے منع فرمایا