احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
علم عقائد کی بعض کتابوں سے اس کے متعلق نقل کرتا ہوں۔ شرح عقائد نسفی میں ہے۔ ’’معراج رسول اﷲﷺ فی الیقظۃ بشخصہ الیٰ السماء ثم الیٰ ماشاء اﷲ من العلی حق ای ثابت بالخبر المشہور حتیٰ ان منکرہ یکون بتدعا‘‘ {معراج رسول اﷲﷺ کی بیداری کی حالت میں اس جسم کے ساتھ آسمان تک اور پھر وہاں سے جہاںتک خدا کی مرضی ہوئی۔ سچ ہے یعنی حدیث مشہور سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ اس کا منکر بدعتی ہے۔} تہذیب الکلام میں ہے۔ ’’دل الکتاب علیٰ معراجہﷺ الیٰ المسجد الاقصیٰ واجماع القرن الثانی علیٰ بالیقظۃ وبالجسد‘‘ {قرآن شریف اس بات کو بتلاتا ہے کہ رسول اکرمﷺ کو معراج مسجد اقصیٰ کی طرف ہوئی اور قرن ثانی کا اجماع اس بات پر ہے کہ بیداری میں جسمانی معراج ہوئی۔} اور یہ ظاہر ہے کہ قرآن شریف سے جو بات ثابت ہو اس کا منکر مسلمان باقی نہیں رہتا۔ مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رکیک تاویل کرنا بھی انکار میں داخل ہے۔ اب جسمانی معراج کی کوئی شخص یہ تاویل کرے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا۔ وہ دراصل نفس واقعہ معراج سے انکار کرتا ہے۔ مگر چونکہ یہ مسلمانوں کا ایسا اجماعی عقیدہ ہے کہ عوام بھی اس عقیدہ سے واقف ہیں۔ اس لئے مرزاغلام احمد قادیانی نے انکار کی یہ صورت اختیار کی۔ تاکہ سیدھے لوگ جو اس کے دام میں آگئے ہیں۔ بھڑک نہ جائیں۔ غرضکہ یہ مسئلہ قرآن وحدیث اور اجماع امت اور جمہور سلف صالحین کے اقوال سے ثابت ہے۔ چنانچہ عینی فتح الباری، روح المعانی، تفسیر ابن کثیر، شرح ملا علی قاری میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اس مسئلہ کو مولانا انوار اﷲ خان صاحب حیدر آبادی نے بہت مفصل طور پر ’’افادۃ الافہام‘‘ میں لکھا ہے اور مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے اس کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’’سلم الوصول‘‘ ہے اور شائع ہوچکا ہے (نوٹ: یہ دونوں رسائل احتساب قادیانیت کی سابقہ جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ فلحمدلللّٰہ! مرتب) اور بعض نے جو حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کا مذہب بیان کیا ہے کہ یہ دونوں حضرات معراج جسمانی کے منکر ہیں۔ محض غلط ہے۔ جس روایت سے یہ غلطی واقع ہوئی ہے وہ روایت چند وجوہ سے غلط ہے۔ اوّل… یہ روایت صحاح میں نہیں ہے۔ نہ اس کے راوی اس قابل ہیں کہ ان کی روایت قبول کی جائے۔ خصوصاً حضرت عائشہؓ کی طرف جو روایت منسوب ہے اس کے متعلق علامہ زرقانی شرح مواہب اللدنیہ میں لکھتے ہیں کہ روایت منقطع ہے اور اس کا راوی مجہول ہے۔ علامہ