احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اوّل… یہ کہ اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو انسان خوا ب میں لاکھوں بلکہ کروڑوں میل کی سیر کرتا ہے اور ہزاروں عجیب وغریب اشیاء دیکھتا ہے تو اس میں کفار آپؐ کی کیا تکذیب کر سکتے تھے اور خواب کے متعلق کیا تعجب کا موقعہ تھا اور وہ بدقسمت لوگ کیوں مرتد ہوگئے۔ یہ سب بڑی دلیل ہے۔ اس بات کی کہ جناب رسول اﷲﷺ نے بھی فرمایا کہ میں نے خواب نہیں دیکھا۔ بلکہ اس جسم کے ساتھ بیت المقدس گیا اور وہاں سے تمام آسمانوں کی سیر کی۔ دوم… حضور اکرمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو محض خواب کی تصدیق کی بناء پر صدیق کا خطاب عطاء فرمایا تھا۔ ہرگز نہیں کیونکہ خواب کی تصدیق تو ہر موافق ومخالف کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ اتنے عظیم الشان خطاب کی سرفرازی محض اس بنا پر ہرگز نہیں ہوسکتی۔ سوم… ’’عن ام ہانیؓ قالت قال رسول اﷲﷺ انا ارید وان اخرج الیٰ قریش فاخبرہم مارأیت فاخذت بتوبہ فقلت انی اذکرک اﷲ انک تأتی قوما یکذبونک ویذکرون مقالتک فاخاف ان یسطوبک قالت فضرب ثوبہ من یدیہ ثم خرج الیہم وایتہم وھم جلوس (انتہی ملخصا درمنثور)‘‘ {حضرت ام ہانیؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میں قریش کی طرف جانا چاہتا ہوں۔ تاکہ جو کچھ میں نے رات کو دیکھا ہے وہ ان سے بیان کردوں تو میں نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور کہا کہ آ پ ایسی قوم کے پاس جاتے ہیں جو آپؐ کی پہلے سے تکذیب کرتی ہے۔ مجھ کو خوف ہے کہ وہ آپؐ پر حملہ نہ کر بیٹھے۔ حضرت ام ہانی فرماتی ہیں کہ آپؐ نے جھٹکا مار کر دامن چھڑا لیا اور ان کے پاس چلے گئے اور ان سے سب واقعات بیان کئے۔} اس حدیث میں حضرت ام ہانیؓ کا دامن پکڑنا اور اصرار کرنا کہ آپؐ تشریف نہ لے جائیے۔ یہ صاف طور پر بتلارہا ہے کہ آپؐ خواب کا واقعہ بیان کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ واقعہ بیداری کا تھا۔ چہارم… کفار کا آپؐ سے بیت المقد اور راستہ کی بعض علامتیں دریافت کرنا اور آپؐ کا جواب باصواب عنایت فرمانا اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپؐ اپنی بیداری کا واقعہ بیان فرمارہے ہیں نہ خواب کا۔ خداتعالیٰ نے اس واقعہ کو اتنی اہمیت دی ہے کہ قرآن شریف میں اپنی تنزیہ کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اپنی حمد کے موقع پر اس کو ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصیٰ‘‘ {پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گئی۔}