احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
یا کسی اور معجزہ کے متعلق ہوتی تو مان لی جاتی۔ چہ جائیکہ وہ معجزات جو کہ نصوص قرآنیہ اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں۔ الغرض یہی حال تمام معجزات کا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں داخل ہونا اور آگ سے آپ کو ضرر نہ پہنچنا۔ حضرت عزیر علیہ السلام کا سو برس تک مردہ رہ کر پھر زندہ ہونا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بے باپ کے پیدا ہونا اور آپ کا آسمان پر اس وقت تک تشریف رکھنا، مگر ان باتوں کو وہی تسلیم کرتا ہے اور وہی مانتا ہے جس کو خداتعالیٰ نے نور ایمان عطاء فرمایا ہو۔ مگر مشیت ایزدی میں یہ امر طے پاچکا تھا اور قرآن شریف میں یہ صفت قرار دے دی گئی تھی۔ ’’یضل بہ کثیرا ویہدی بہ کثیرا‘‘ اس لئے ہزارہا اشقیاء خود معجزات دیکھنے کے بعد بھی اس دولت سے محروم رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کو خود منظور نہ تھا کہ یہ دولت اتنی عام اور بے قدر ہو جائے۔ ’’ولو شاء لہٰداکم اجعمین‘‘ یعنی خدا چاہتا تو تم سب کو ہدایت کرتا۔ کفار کے سوال پر آنحضرتﷺ نے بیت المقدس کی نشانیاں بتلادیں۔ حتیٰ کہ آپ نے یہ بھی فرمادیا۔ ’’ثم انتبیت الیٰ عیر بنی فلان فی التنعیم یقدمہا جمل اورق وماھی ذہ تطلع علیکم من الثنیئۃ فقال الولید بن مغیرۃ ساحر افانطلقوا فنظروا فوجد واکما قال (درمنثور ج۴ ص۱۴۹)‘‘ {کہ آخر میں مقام تنعیم میں مجھ کو ایک قافلہ ملا جس میں آگے خاکستری رنگ کا اونٹ تھا اور وہ یہیں قریب میں ابھی وہ تمہارے سامنے اس گھاٹی سے آئے گا۔ ولید ابن مغیرہ نے کہاکہ یہ ساحر ہیں۔ کچھ لوگ امتحاناً گئے تو قافلہ کو اسی حالت میں پایا۔ جیسا کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا تھا۔} مبارک تھیں وہ ذاتیں جنہوں نے اس واقعہ کو سنتے ہی کہہ دیا کہ ’’صدقت یا رسول اﷲ‘‘ اور بدنصیب تھے وہ بدبخت جنہوں نے ’’اتحدثنا انک سرت مصیرۃ شہرین فی لیلۃ واحدۃ‘‘ آپ ہم سے بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے دوماہ کی راہ ایک شب میں طے کر لی۔ کہہ کر مرتد ہوگئے۔ یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ معراج کا واقعہ کسوٹی ہے۔ جس نے اس سے انکار کیا وہ اوندھے منہ گمراہی کے گڑھے میں گرا اور اس کی شقاقت ازلی کا حال معلوم ہوگیا۔معراج جسمانی کا ثبوت قرآنی آیات سے بعد میں عرض کروںگا۔ چند باتوں پر اس وقت میں ناظرین کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔