احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مگر عادت کی وجہ سے نہ ان میں غور کرنے کی نوبت آتی ہے اور نہ خلاف عقل معلوم ہوتے ہیں۔ دور نہ جائیے۔ روشنی ورنگ یہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ دنیا کی کوئی چیز ان سے خالی نہیں۔ مگر کیا کوئی ان کی حقیقت بیان کر سکتا ہے اور کسی مادر زاد نابینا کو روشنی کی حقیقت بتلائی جاسکتی ہے۔ بجز اس کے کہ اس نور کے ادراک کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے جو قوت عطاء کی گئی ہے اس سے مدد نہ لی جائے اور بغیر اس کی حقیقت پر غور کئے اس کو مان نہ لیا جائے۔ اب یہ معمولی امور ہیں کہ جن کی حقیقت گویا راز الٰہی ہے۔ مگر محض اسی وجہ سے کہ ہم ان کو روزانہ برتتے ہیں۔ خلاف عادت نہیں معلوم ہوتے۔ اسی طرح اگر آسمان پر آنا جانا جنت اور دوزخ کی رویت امور عادی ہوتیں تو یہ بھی مستبعد اور محال نہ معلوم ہوتیں۔ اس زمانہ جدید کے فلسفیوں نے روشنی کو ایک جوہر بلکہ ایک جسم مان لیا ہے اور اپنی تحقیق بڑی زور سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک منٹ میں ایک کروڑ بیس لاکھ میل کی مسافت طے کرتی ہے اور اسی طرح بجلی ایک منٹ میں پانچ سو مرتبہ تمام زمین کے گرد گھوم سکتی ہے۔ بعض دمدار ستاروں کی صرف دم تین کروڑ بیس لاکھ میل کی ہے اور ان کی رفتار ایک گھنٹہ میں آٹھ لاکھ اسی ہزار میل ثابت ہوئی ہے۔ ہیئت قدیم میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ فلک تاسع کے نچلے حصہ کا ہر نقطہ ایک دن میں دس کروڑ اکھتر لاکھ میل حرکت کرتا ہے۔ شیدایان مذہب ذرا توجہ کریں کہ آج ہم لوگ ایک ستارہ کی حرکت کو ایک منٹ میں کروڑ وں میل تسلیم کر لیتے ہیں اور چون وچرا کی گنجائش بھی نہیں سمجھتے۔ اب اگر خدا اور اس کے رسول کی باتوں کو اس طریقہ پرتسلیم کر لیا جائے تو کیا محال لازم آتا ہے۔ نہایت افسوس ہے ان لوگوں پر جو معراج اور اس قسم کے مسائل پر ایمان لانے کے لئے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور ناپاک تاویلات کرتے ہیں اور کبھی دریدہ دہنی سے یہ کہہ بیٹھتے ہیں کہ معراج اس جسم کثیف کے ساتھ نہیں تھا اور کبھی یوں تاویل کرتے ہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کا کشف تھا۔ وہ ایماندار جس کو خداتعالیٰ کی قدرت کا پورا پورا یقین ہے اور اس پر ایمان ہے کہ حق تعالیٰ صرف لفظ کن سے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ ایک منٹ میں بعض اجسام کثیفہ کو کروڑوں میل چلاتا ہے۔ کیا اس کو اس میں شک ہوسکتا ہے کہ جناب رسالت مآبﷺ جن کا جسد مبارک ہماری جانوں سے بھی زیادہ لطیف تھا۔ ان کو تھوڑے عرصہ میں آسمانوں کی سیر کرائی۔ کیا مسلمانوں کے نزدیک خداوند جل جلالہ اور اس کے سچے نبیﷺ کی بات کی اتنی بھی وقعت نہیں جو آج وہ اہل یورپ کی کرتے ہیں۔ اب جو کہ ان مسئلوں کا انکار کرتے ہیں تو دراصل ان کو نہ خداتعالیٰ کے وجود کا یقین ہے اور نہ نبی کریمﷺ کی صداقت کا اعتقاد ہے۔ ایمان کا تقاضا تو یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر معراج یا