احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ص۵۰، خزائن ج۲۲ ص۵۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’ابراہیم علیہ السلام چونکہ صادق اور خداتعالیٰ کا وفادار بندہ تھا۔ اس لئے ہر ایک ابتلاء کے وقت خدا نے اس کی مدد کی۔ جب کہ وہ ظلم سے آگ میں ڈالا گیا خدا نے آگ کو اس کے لئے سرد کردیا۔‘‘ سوال نمبر:۴ آنحضرتﷺ کو معراج جسمانی ہوئی یا روحانی۔ جواب نمبر:۴ معراج جناب رسالت مآبﷺ کو روحانی وجسمانی دونوں ہوئی ہیں۔ چنانچہ علمائے اسلام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ: ’’الا ظہران المعراجہ علیہ السلام اربع وثلثون مرۃ واحدۃ بجسدہ والباقی بروحہ فتوحات مکیہ (نقلاً عن افادۃ الالہام ج۲)‘‘ {آپ کو چونتیس بار معراج ہوئی۔ جس میں ایک بار جسمانی معراج ہوئی۔} دوسری جگہ حضرت شیخ اکبر (فتوحات مکیہ ج۳ باب۳۵۴) میں فرماتے ہیں۔ ’’ان الاسراء کان بجسدہ ﷺ‘‘ یعنی معراج لیلتہ الاسراء میں جسمانی ہوئی تھی۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کو مختصر طور پر بیان کروں۔ مگر اس سے پہلے چند امور قابل گذارش ہیں۔ معراج کا مسئلہ اسلام میں ایک ایسا عظیم الشان مسئلہ ہے جو کہ خود آنحضرتﷺ کے زمانہ میں کفر وایمان کا مدار تھا اور اس لئے علمائے اسلام نے اس کے منکر کو کافر لکھا ہے۔ علامہ کستلی شرح عقائد نسفی کے حاشیہ میں لکھتے ہیں۔ ’’اما انکار اصل المعراج فہو کفر بلا شک‘‘ {اور نفس واقعہ معراج کا انکار کرنا بلاشک کفر ہے۔} یہ ایک واقعہ ہے کہ اس مسئلہ میں اکثر ایسی باتیں ہیں جو معمولی سمجھ والوں کی سمجھ سے بالا ہیں اور ان کو ان امور کا تسلیم کرنا گوارا نہیں۔ مثلاً اتنی قلیل مدت میں دور دراز سفر طے کرنا اور سینے کا شق ہونا، براق پر سوار ہونا اور پھر اس دور ضلالت میں جس کو روشنی کا زمانہ کہا جاتا ہے اور اس قادر مطلق کی بے انتہاء قدرت کو اپنی معمولی عقل کے اندر محدود سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت میں آسمان کا وجود تسلیم کرنا اور پھر اس کے طبقات کو ماننا دشوار ہے۔ غرضکہ اس میں بیسیوں ایسی باتیں ہیں جس کی نظیر کسی دوسرے معجزے میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے یہ عظیم الشان معجزہ ٹھہرا۔ مگر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عالم میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کا عقل سے معلوم ہونا ممکن نہیں بلکہ بعض عارف تو اس عالم کے تمام امور کے متعلق یہ کہہ چکے ہیں۔ مصرعہ کہ ؎ کس نکشود ونکشاید بہ حکمت این معمارا