احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
پتھر پر مارو۔ (انہوں نے مارا) پس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (ان میں سے) سب لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرلیا۔} اب آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اس آیت میں دو جگہ حذف واقع ہوا ہے۔ اوّل تو فاضرب بعصاک الحجر کے بعد یعنی حضرت موسیٰ کی درخواست پر جب یہ حکم دیاگیا کہ پتھر پر اپنے عصا کو مارو تو اس کے بعد یہ جملہ کہ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر لکڑی ماری محذوف ہے۔ مگر چونکہ فحوائے کلام خود اس کو بتلا رہا ہے ۔ اس لئے حذف کردیا گیا۔ کیونکہ اس حکم کے بعد کہ پتھر پر مارو، خداتعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اس پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ بغیر اس کے کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ارشاد خاوندی کی تعمیل نہ کی ہو۔ بلکہ ضرور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پتھر پر لکڑی ماری اور پھر پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ سمجھ والا بھی بغیر کسی شک وشبہ کے سمجھ سکتا ہے کہ یہاں سے فضربہ کا لفظ محذوف ہے۔ دوسرے کل اناس کے بعد منہم کا لفظ محذوف ہے۔ کیونکہ اگر منہم کا لفظ محذوف نہ ہو تو آیت کے معنی یہ ہوںگے کہ سارے جہاں کے لوگوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جماعت کے تمام لوگوں نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔ اس تمثیل کے بعد اب میں یہ کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ قرآن شریف میں دو مقام پر ہے۔ پہلی جگہ سورۂ انبیاء سترھویں پارہ میں دوسری جگہ سورۂ والصافات تیئیسویں پارہ میں پہلی جگہ ارشاد خداوندی ہے۔ ’’قالوا حرقوہ وانصروا الہتکم ان کنتم فاعلین قلنا یا نارکو نی برداً وسلاماً علیٰ ابراہیم وارادوا بہ کیدا فجعلناہم الاخسرین (انبیائ)‘‘ {مشرکین نے کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ اگر تم کو مدد کرنی ہے (پھر کافروں نے آگ میں ڈالا) تو ہم نے (آگ کو مخاطب کر کے) کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا موجب بن جا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اور انہوں نے آگ میں ڈالنے سے شرارت کا ارادہ کیا تو ہم نے ان کو (ان کی شرارت کے ارادہ میں) ناکامیاب رکھا۔} اس آیت میں فاعلین کے بعد فالقوہ محذوف ہے۔ یعنی ان کو آگ میں ڈال دیا اور یہ حذف ایسا ہے کہ ظاہر عبارت سے سمجھ میں آتا ہے اور فحوائے کلام خود اس کو بتلاتا ہے کہ یہاں اتنا جملہ محذوف ہے۔ کیونکہ اگر اس جملہ کو محذوف نہ مانا جائے تو خدائے تعالیٰ کا آگ کی طرف خطاب کر کے یہ فرمانا کہ اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا۔ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ خداتعالیٰ کا آگ کو حکم دینا