احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس واقعہ کے متفرق اجزاء مختلف صحابہ عظام سے مروی ہیں۔ چنانچہ تفسیر جامع البیان میں علامہ طبری حضرت کعبؓ سے روایت کرتے ہیں۔ ’’ما احرقت النار من ابراہیم الاوثاقہ (تفسیر طبری ج۱۷ ص۲۹، درمنثور ج۴ ص۳۲۲)‘‘ {آگ نے سوائے آپ کے بندھن کے اور کسی چیز کو نہیں جلایا۔} ابویعلی وابونعیم ابن مردویہ اور خطیب نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ ’’قال قال رسول اﷲﷺ لما القے ابراہیم فی النار قال اللہم انک فی السماء واحد وانا فی الارض واحد عبدک (درمنثور ج۴ ص۳۲۲)‘‘ {جب حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں داخل کئے گئے تو آپ نے فرمایا کہ اے اﷲ تو آسمان پر یکتا ہے اور میں زمین میں اکیلا تیری عبادت کرتا ہوں۔} مصنف ابن ابی شیہ میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ: ’’اوّل کلمۃ قالہا ابراہیم حین االقییٰ فی النار حسبنا اﷲ ونعم الوکیل (درمنثور ج۴ ص۳۲۲)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں داخل کئے گئے تو سب سے پہلے جو کلام اپنی زبان سے نکالا تھا وہ حسبنا اﷲ ونعم الوکیل تھا۔} ایک روایت ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت منہال ابن عمر سے کی ہے۔ ’’ان ابراہیم القیٰ فی النار وکان فیہا اما خمسین واما اربعین قال ما کنت ایاماً ولیالی قط اطیب عیشا اذ کنت فیہا (درمنثور ج۴ ص۳۲۲)‘‘ {حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آگ میں ڈالے گئے تو اس میں چالیس یا پچاس دن کے قریب رہے اور آپ نے فرمایا کہ میرے وہ ایام نہایت آرام سے گذرے۔} اب یہ روایتیں صاف طور پر ثابت کرتی ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ضرور آگ میں داخل ہوئے اور ان روایتوں کو نہایت مستند محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ان کے علاوہ اور بہت سی روایتیں ہیں۔ جن سے صراحۃً اور کنایۃً آپ کا آگ میں داخل ہونا ثابت ہے۔ اب اتنی حدیثوں کے بعد کسی مسلمان کو آپ کے آگ میں ڈالے جانے کے بارہ میں کوئی شک ہوسکتا ہے۔ نہیں اور ہرگز نہیں۔ اگرچہ اب ایک دیندار مسلمان کو اس میں شک کرنے کا بالکل موقع نہیں اور ایک ایماندار کے لئے اتنی حدیثوں کے بعد اس کی اصلاً ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کا ثبوت قرآن شریف بھی دیا جائے۔ کیونکہ مسلمان کے نزدیک جناب شارع علیہ السلام کا