احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
جو کہ نبوت کا مدعی ہو اور تمام اولوالعزم نبیوں کی توہین کرتا ہو کیا ایسا شخص مسلمان ہوسکتا ہے۔ مسائل اسلامیہ میں بحث کرنا تو علمائے اسلام کی شان ہے اور جو گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہو تو اس کا اسلامی مسائل پر بحث کرنا یا تو اسلام کے ساتھ استہزاء ہے یا مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ اب میں یہاں مختصر طور پر علمائے مفسرین کے اقوال نقل کرتا ہوں جو مقتضائے اسلام ہے اور ان کے تحت میں بعض وہ حدیثیں بھی نقل کروںگا جو اس بارہ میں مروی ہیں۔ جن کے ملاحظہ سے ہر دیندار مسلمان کو یقین ہوجائے گا کہ یہ واقعہ ثابت ہے اور یقینا ثابت ہے۔ سب سے پہلے اس واقعہ کے متعلق حضرت شیخ محی الدین المعروف بہ شیخ زادہ علیہ الرحمۃ کی وہ عبارت نقل کی جاتی ہے جو انہوں نے تفسیر بیضاوی کے حاشیہ میں تحریر فرمائی ہے۔ ’’کیفیۃ القصۃ انہ لما اجتمع نمرود وقومہ لا حراق ابراہیم حبسوہ فی بیت وبنوا بنیانا کا الخظیرۃ ثم جمعوا الحطب الکثیرۃ ثم اوقدوھا فلما اشتعلت النار صارالہواء بحیث لو مراالطیر فی اقصی الجولا حترق من شدہ وھجہا ثم عمد والی ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام فصنعوہ فی المنجنیق مقید مفلولا ورموہ الی النار فاتاہ جبریل فقال لہ یا ابراہیم الک حاجۃ قال اما الیک فلا قال فاسئل ربک قال حسبی من سوا لی علمہ بحالی فقال اﷲ تعالیٰ یا نار کونی بردا وسلاما علیٰ ابراہیم (انتہی ملخصا حصہ۲ ص۳۵۶، مطبوعہ مصر)‘‘ {جب نمرود اور اس کی قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جلانے کا مصمم ارادہ کر لیا تو آپ کو گرفتار کر کے ایک گھر میں مقید رکھا اور ایک احاطہ چار دیواری گھیری اس میں بہت سی لکڑیاں جمع کر کے آگ روشن کی۔ اس کے شعلے کے بھڑکنے سے ہوا اتنی گرم ہوگئی کہ اگر کوئی چڑیا اس کی بلندی سے گذرتی تو جل کر خاک سیاہ ہوجاتی۔ پھر لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ آپ کو پابزنجیر کر کے گوپھن میں باندھ کر آگ میں پھینک دیا۔ اس وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کیا آپ کو کسی بات کی ضرورت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا۔ مگر آپ سے مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا تو اپنے خدا سے درخواست کیجئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اس کو میری جان کی خبر ہے۔ مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت اﷲتعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈک اور راحت ہو جا۔}