احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اسی کو کہتے ہیں، اس جگہ اس کتاب کے چند اقتباسات کا ترجمہ لکھتا ہوں۔ ناظرین ملاحظ فرمائیں کہ کشمیر والی قبر کس کی ہے اور مرزاقادیانی کی ڈھٹائی کیسی ہے۔ شیخ ابن بابویہ کتاب اکمال الدین واتمام النعمۃ میں بسند خود محمد بن زکریا سے نقل کرتے ہیں کہ ممالک ہندوستان میں ایک بادشاہ تھا۔ جس امر کو امور دنیا سے چاہتا تھا اسے بآسانی میسر ہوتا تھا۔ اس کے ملک میں دین اسلام داخل ہوچکا تھا۔ جب یہ تخت پر بیٹھا تو اہل دین سے بغض رکھنے لگا اور ان کو ستانے لگا۔ بعض کوقتل کرادیا اور بعض کو جلاوطن کر دیا اور بعض اس کے خوف سے روپوش ہوگئے۔ ایک دن بادشاہ نے ان لوگوں میں سے جو ایک نزدیک نظر عزت سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک شخص کی نسبت دریافت کیا تو وزراء نے عرض کیا کہ وہ چند ایام سے تارک دنیا ہوکر گوشہ نشین ہوگیا ہے۔ بادشاہ نے اس کی طلبی کا حکم دیا اور اس کو لباس زہادو عبادمیں دیکھ کر بہت خفگی ظاہر کی۔ اس باخدا کے ساتھ بادشاہ کی بہت باتیں ہوئیں اس نے بہت حکمت آمیز باتیں کیں۔ لیکن بادشاہ کو کچھ اثر نہ ہوا اور اسے اپنی مملکت سے نکلوا دیا۔ بعد اس واقعہ کے تھوڑا عرصہ نہ گذرا تھا کہ بادشاہ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام یوذ آسف رکھا۔ شاہزادے کی ولادت پر منجمون نے اس کے طالع کی نسبت بالاتفاق کہا کہ یہ شہزادہ فرخندہ طلعت نیک اختر نہایت اقبالمند ہوگا۔ لیکن ایک بوڑھے منجم نے کہا کہ اس کا طالع واقبال دنیوی جاہ وحشم کے متعلق نہیں۔ بلکہ یہ سادت مندی عاقبت کی ہوگی اور گمان قوی ہے کہ یہ شہزادہ پیشویان زہادو عباد سے ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر نہایت حیران وغمگین ہوا اور اس کی تربیت کے لئے حکم دیا کہ ایک شہر اور قلعہ خالی کرایا جائے۔ جس میں صرف شہزادہ اور اس کے خادم سکونت کریں اور سب کو نہایت تاکید کی کہ آپس میں کوئی تذکرہ دین حق اور مرگ اور آخرت کا ہرگز نہ کریں۔ تاکہ یہ خیالات اس کے کان میں نہ پڑیں۔ اس کے بعد کئی سو صفحوں تک شہزادہ کی تربیت اور دین حق کی طرف اس کی رغبت اور علم دین کی تعلیم اور ترک سلطنت اور اختیار فقر کا ذکر ہے۔ اس بیان سے صاف واضح ہے کہ شہزادہ یوذ آسف ممالک ہندوستان کے شہزادوں میں سے ایک باہدایت وباایمان شہزادہ ہوا ہے۔ جسے حق تعالیٰ نے اپنے دین کی راہ دکھلائی اور دوسری کتاب شہزادہ یوذ آسف اور حکیم بلوہر نامی جس کو ڈاکٹر صفدر علی صاحب نے تصنیف کی ہے اور یہ کتاب حیدرآباد کے مدرسوں میں داخل درس ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے کہ شہزادہ یوذ آسف نے کشمیر کو آباد کیا اور یہیں انتقال کیا۔ نہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل ملک کشمیر میں آئے اور یہیں فوت ہوئے۔