احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
پھر حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اگر تم کو اس میں شک ہو تو یہ آیت پڑھو۔ ’’وان من‘‘ اس صریح حدیث کا انکار کرنا اور اس کے مقابلہ میں دلیری سے یہ کہنا کہ آپ وفات پاچکے اور آپ کی قبر کشمیر میں ہے۔ کیسی ناپاک جرأت اور بددینی۔ جناب رسول اﷲﷺ کو جھٹلانا بجز بددین قادیانیوں کے کوئی مسلمان اس کی جرأت نہیں کرسکتا۔ امام شوکانی اپنی کتاب توضیح میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔ ’’وقد ورد فی نزول عیسیٰ علیہ السلام من الاحادیث تسعۃ وعشرون حدیثا‘‘ {حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق انتیس حدیثیں مروی ہیں۔} اس کے بعد آپ حدیثوں کو نقل کر کے لکھتے ہیں۔ ’’وجمیع ما سقناہ بالغ حدا التواتر کما لا یخفی علی من لہ فضل اطلاع‘‘ {یعنی یہ حدیثیں جو ہم نے نقل کی ہیں۔ حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ جن کو کامل اطلاع ہے۔ ان پر پوشیدہ نہیں ہے۔} اسی طرح فتح الباری میں ہے۔ ’’تواترت الاخباربان المہدی من ہذہ الامۃ وعیسیٰ علیہ السلام یصلی خلفہ وقال الحافظ ایضاً الصحیح ان عیسیٰ رفع وھو حی انتہی‘‘ {یعنی حضرت مہدی علیہ السلام کے اس امت سے ہونے کے متعلق اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق احادیث تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں۔} اس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام شریعت محمدیہ کے پیرو ہوںگے اور دوسری جگہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور آپ آسمان پر زندہ ہیں۔ حاصل یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رہنا اور پھر ان کاقریب قیامت کے نزول فرمانا ایسا مسئلہ ہے۔ متواتر حدیثوں سے ثابت ہے۔ جس کا انکار نہ کوئی مسلمان کرسکتا ہے اور نہ ایسے شخص کو جو متواتر حدیث کا منکر ہو باتفاق علماء اسلام مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ پس مرزاقادیانی کا دعویٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے اور وہ مسیح جس کی پیشین گوئی اور وعدہ ہے۔ وہ میں ہوں۔ متواتر احادیث کی تکذیب ہے اور جناب حضرت نبی کریمﷺ کو جھٹلانا ہے۔ جس پر جاہل قادیانی آنکھ بند کر کے ایمان لائے اور اس کی اشاعت کرتے ہیں اور اتنا بھی انہیں سمجھتے کہ اگر بالفرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے اور بالفرض کوئی دوسرا بزرگ مسیح موعود ہوگا جس کے برکات بہت کچھ حدیثوں میں آئے ہیں۔