احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
یعنی جس طرح حضرت آدم علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور وہ انسان تھے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور انسان ہیں۔ مذکورہ حدیثوں نے بھی اس بات کو ثابت کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام محض اﷲ کے حکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ پہلی حدیث سے تو یہ بات معلوم ہوئی کہ جس طرح نجات کے لئے کلمۂ توحید ورسالت کا اعتقاد اور اس پر کامل یقین ہونا ضروری اور داخل ایمان ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور ان کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اس حدیث کو امام بخاری آیت مذکورہ کے ضمن میں لکھتے ہیں۔ جس میں اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا کلمہ اور روح فرمایا ہے اور یہاں کلمہ سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا محض اس کے حکم سے ظہور میں آنا ہے۔ جس کو علامہ قسطلانی نے صاف کردیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود بغیر باپ اور نطفہ کے ہوا۔ دوسری حدیث نے اس مضمون کو اور صاف کردیا۔ کیونکہ اس حدیث میں ذکر ہے کہ نصاریٰ اہل نجران نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں حضور انورﷺ سے سوال کیا۔ آپ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ وہ خدا کے بندے اور اس کی روح ہیں۔ اس لئے انہوں نے انکار کیا۔ کیونکہ یہ تو ان کے عقیدے اور مذہب کے خلاف ہے۔ وہ تو خدا کا بیٹا بلکہ خدا مانتے ہیں۔ اس کے جواب میں وحی نازل ہوئی اور آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنادی۔ ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم یہ قرآنی آیت اس مدعا کے ثبوت میں پیش بھی کی جا چکی ہے۔ اس حدیث میں اس آیت کے شان نزول کو بھی متعین فرمادیا۔ جس سے روشن ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کے ثبوت میں اﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ غرضیکہ خود صاحب وحی نے اس آیت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیداہونے پر دلیل قرار دیا اور نصاریٰ نجران کو ساکت فرمایا۔ اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ تمام دنیا کا یہ مسلمہ اصول ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا اور ہر جاہل سے جاہل بھی اس بات کو خوب سمجھتا اور جانتا ہے کہ عام طور پر لڑکے کی نسبت باپ ہی کی طرف ہوتی ہے۔ ماں کی طرف کوئی بھی نسبت نہیں کرتا۔ یعنی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکا فلاں مرد کاہے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ فلاں عورت کا ہے۔ لیکن یہ خصوصیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کے ساتھ ہے کہ آپ کو عام طور پر ابن مریم ہی کہاجاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کے