احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
لفظاً لفظاً نقل کردیتا ہوں۔ (اس کے بعد اپنے خط مورخہ ۲۲؍ستمبر کی عبارت نقل کی ہے۔ یہ خط اوپر درج ہوچکا) اس خط کے جواب میں مجھے جو خط آیا ہے اور جو میں نے آپ کو دکھایا تھا اس میں لکھا ہے کہ ہم آپ کی باتیں ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن ہم کو سمجھا دو کہ مرزاقادیانی کی فلاں فلاں عبارت سے کیا مطلب ہے۔ میں نہ مرزاقادیانی کی طرف سے واعظ بن کر یہاں آیا ہوں نہ ان کے دعویٰ کو کسی پر پیش کرتا ہوں۔ بلکہ جب سے میں نے یہ مشن نکالا ہے۔ تب سے میں نے اپنی ذات کومرزاقادیانی کے متعلق کچھ لکھنے یا بولنے سے الگ کر لیا ہے اور آئندہ بھی میرا یہی پختہ ارادہ ہے۔ پھر مجھ سے مرزاقادیانی کے متعلق کیوں پوچھتے ہیں۔ مجھے جو پہلے خط آیا تھا۔ اس میں دس بارہ آدمیوں کے دستخط تھے۔ اب جو خط آیا ہے۔ اس پر صرف ایک آدمی کا دستخط ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ باقی اصحاب اس امر سے الگ ہوگئے ہیں۔ اس خط میں مجھ سے ایک اور درخواست کی گئی ہے کہ میں مرزاقادیانی سے تبرا ۱؎ کروں نہ معلوم یہ کس دل سے بات نکلی ہے۔ تیرہ سو برس سے تبرا کرنے والوں سے جو تکلیف اہل سنت والجماعت کو پہنچی ہے وہ ظاہر ہے نہ معلوم پھر تبرا کے خواہشمند کیوں ہوگئے۔ مجھ پر اعتراض تو ہوتا اگر میرا مذکورۂ بالا عقیدہ اسلام کے مطابق نہ ہوتا۔ میں نے یہ معتبر ذریعہ سے سنا ہے کہ میرا خط لوگوں کو دکھلایا نہیں گیا ۲؎ نہ سنایا گیا۔ صرف کسی نے کہہ دیا کہ اس نے یہ یہ لکھا ہے۔ اصل خط نہیں سنایاگیا۔ اس لئے ممکن ہے بعض سورتی صاحبان کو اطمینان نہ ہوا ہوگا۔ اس وجہ سے میں نے زبانی کہنے کے علاوہ یہ تحریر آپ کو لکھ دی ہے کہ آپ اسی خط کو یا چھاپ دیں یا بجنسہ جہاں چاہیں بھیج دیں۔ اس سے زیادہ میں کسی کی تشفی نہیں کرسکتا اور نہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ میں ایک غیر مسلم کے مقابل آنے کو ہر منٹ تیار ہوں۔ میں مسلمان کے مقابل کسی تنازعہ فرقی کے لئے باہر آنا برا سمجھتا ہوں۔ اسی موضوع پر میں نے لکھا ہے اور کتابیں تصنیف کی ہیں۔ میں اسلام کے لئے وہ دن مبارک سمجھوںگا جب ہم میں سے فرقی تنازعہ مٹ جائے گا اور میں رات دن اس کوشش میں ہوں۔ کیا عجب بات ہے کہ جس بات سے مجھے نفرت ہے اس کے لئے مجھے بلایا جاتا ہے۔ اب ایک بات پر میں اس خط کو ختم کرتا ہوں۔ مجھے انگلستان کے مشہور ومعروف ۱؎ خواجہ صاحب کے علم کا یہ حال ہے کہ تبری کا تبرا لکھتے ہیں۔ ۲؎ کیسا سفید جھوٹ ہے جس کا جھوٹ ہونا سارا رنگون جانتا ہے۔