احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
حسرت وتمنا ؤں کا طلاطم ہوگیا۔ لیکن اظہار محبت وپیغام نکاح کا کوئی موقع سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ وہ لڑکی ابھی کمسن ہے اور یہ اس وقت بڈھے فرتوت ہوگئے تھے۔اس لئے ڈرتھا کہ لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ تم بڈھے ہو اور وہ کمسن ہے۔ تمہارا اس کا میل نہیں ہوسکتا۔ اس کے علاوہ مذہبی تخالف ہوگیا۔ مرزاقادیانی اسی خوف سے مدتوں اپنے اوپر فراق کی مصیبتیں سہتے رہتے۔ لیکن زبان سے ایک لفظ نہیں نکالا اور ہمیشہ فکر میں مبتلا رہے۔ (اسی موقع پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ ہم آسمانی نشان کے لئے دعاء میں مصروف تھے) آخر خدا خدا کر کے مرزاقادیانی کو اظہار محبت کا ایک موقع ہاتھ آگیا اور جو کچھ ان کے جی میں تھا کہہ بھی سنایا۔ وہ موقع یہ تھا کہ لڑکی کے باپ کو ایک ہبہ نامہ پر ان سے گواہی کرانے کی ضرورت پڑی اور یہ گواہی ان کی ایسی تھی کہ بغیر اس کے وہ کاغذ مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ بس پھر کیا تھا فوراً کہہ دیا کہ اپنی لڑکی کو میرے نکاح میں دو،تب ہم گواہی کریںگے۔ (ان کے الفاظ یہ تھے) ’’چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہمارے رضامندی کے بیکار تھا۔ اس لئے مکتوب الیہ نے بتمامتر عجزوانکسار سے ہماری طرف رجوع کیا۔ تاہم اس ہبہ نامہ پر راضی ہوکر اس ہبہ نامہ پر دستخط کردیں اور قریب تھا کہ دستخط کر دیتے۔ لیکن یہ خیال آیا کہ ایک مدت سے بڑے بڑے کا موں میں ہماری عادت ہے۔ جناب الٰہی میں استخارہ کر لینا چاہئے۔ سو یہی جواب مکتوب الیہ کو دیاگیا۔ پھر مکتوب الیہ کے متواتر اصرار سے استخارہ کیاگیا۔ وہ استخارہ کیا تھا گویا آسمانی نشان کا وقت آپہنچا تھا۔ جس کو خداتعالیٰ نے اس پیرایہ میں ظاہر کردیا۔ اس خدائے قادر حکیم مطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص کی دختر کلاں کے نکاح کے لئے سلسلہ جنبانی کر اور ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک ومروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، خزائن ج۵ ص۵۷۳) ناظرین! ملاحظہ کریں کہ یہ مرزاقادیانی کی کیسی صریح بناوٹ ہے۔ واقف کار حضرات جانتے ہیں کہ استخارہ وہیں کرتے ہیں جہاں انجام کی حالت معلوم نہیں ہوتی کہ کیا ہوگا اور جو امر خیر باعث ثواب ہے۔ ان میں ان میں استخارہ کرنا چہ معنی۔ نہایت مشہور مقولہ ہے کہ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست۔ یعنی نیک کام میں استخارہ کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ جو نیک کام جس