احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کرسکتا اور ظاہر ہے کہ جب آپ کے مرشد محض جھوٹی باتیں قرآن وحدیث کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں اور آپ نے بھی اپنے مرشد کی پیروی سے بعض جگہ بیان کیا ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ چودھویںصدی میں مسیح موعود آوے گا۔ حالانکہ کسی حدیث میں یہ مضمون نہیں ہے۔ جب آپ کا یہ مذہب ہے اور آپ کی یہ حالت ہے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ آپ کی تقریر کو جس میں جھوٹ کے ذخیرہ ہونے کا ظن غالب ہو، علمائے حقانی آپ کا بیان اس شرط پر سننا گوارا فرمادیں اور جھوٹی باتیں سنتے رہیں اور اس کے بعد ان کو جواب کا بھی موقع نہ دیا جائے اور خواہ مخواہ الساکت عن الحق شیطان اخرس کا مصداق بنیں۔ آپ کی کھلی چٹھی کا یہ پہلا فریب تھا۔ دوسرا، فریب آپ کا یہ ہے کہ آپ حضرت اقدس کے رسالوں پر جو چار پانچ برس سے مرزاقادیانی کی پیشانی پر سے جھوٹ وکذب وافتراء ودجل کے بڑے بڑے بدنما داغ مٹانے کے لئے آپ کو چیلنج دے رہے ہیں۔ پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ مولوی صاحب آپ کا یہ خیال محض خام اور باطل ہے۔ آپ چاہے جس قدر اپنی جھوٹی اور مصنوعی مسعتدی زبانی گفتگو کے لئے دکھائیں۔ لیکن اس سے وہ کتابیں ضائع نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مشعل ہدایت بن کر مسلمانوں کو راہ مستقیم دکھاتی رہیںگی۔ چاہے اس سے مرزاقادیانی کی ہڈیاں قبر میں جل کر خاک سیاہ کیوں نہ ہو جائیں۔ غرضکہ آپ ہزار جتن کریں۔ لیکن کتابوں پر پردہ نہیں پڑسکتا اور اس طور سے آپ کی دوسری غرض بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ سوم، آپ لکھتے ہیں کہ آپ کے اشتہار کا جواب حضرت ہی تحریر فرمائیں۔ کسی اور کے جواب کی طرف آپ توجہ نہیں کریںگے۔ آپ کا یہ قول بھی دجل کے پورا کرنے میں کم نہیں ہے۔ کیونکہ یہ قول صاف بتارہا ہے کہ آپ کو اظہار حق مقصود نہیں ہے۔ بلکہ آپ صرف برابری دکھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اولاً اظہار حق کے لئے کسی کی تخصیص نہیں ہوسکتی ہے۔ چاہے کوئی طالب حق کیوں نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ بھاگلپور میں جس ڈرانے والی صدا سے قادیانیوں کی ہڈی لرزہ میں آئی تھیں۔ وہ مولانا مولوی سید مرتضیٰ حسن صاحب کی صدا تھی اور وہ بھاگلپوری میں تھے۔ نیز آپ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت مولانا بوجہ صنف پیری کے ایک گھنٹہ مسلسل مجمع میں تقریر نہیں فرماسکتے اور