احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہوںگے یعنی نبی ہوںگے۔} ف:۱… حضرت مریم صدیقہؓ کو جب بشارۃ فرزند کی سنائی گئی تو اس فرزند ارجمند کے فضائل ومناقب بھی ان کو بتائے گئے کہ وہ کوئی معمولی لڑکا نہیں بلکہ وہ بڑے رتبہ کا انسان ہوگا۔ اس میں یہ یہ اوصاف ہوںگے۔ ف:۲… ظاہر ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کر رہی ہے۔ لہٰذا تین چیزیں جو اس آیت میں بیان ہوئی ہیں۔ ان تینوں سے ان کی فضیلت ثابت ہونی چاہئے۔ چنانچہ پہلی چیز یعنی گہوارہ میں کلام کرنا اور تیسری چیز یعنی نیکوں میں سے ہونا بلا اختلاف غیر معمولی فضیلت ہے۔ کیونکہ حالت نوزائیدگی میں کلام کرنا اور نیکوں میں سے ہونا یعنی نبی ہونا ایک فوق العادۃ وصف ہے جو ہر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ منکروں کو بھی اس پر تعجب تھا کہ کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی کیسے کلام کر سکتا ہے۔ ’’قالوا کیف نکلم من کان فی المہد صبیا‘‘ یہ پورا واقعہ قرآن شریف میں ہے۔ پس ضروری ہوا کہ دوسری چیز یعنی بڑی عمر میں لوگوں سے کلام کرنا غیر معمولی وصف کے معنی میں لیا جائے اور اس کا غیر معمولی وصف ہونا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ موافق عقیدہ اہل اسلام وہ ایک ایسی مدت دراز تک زندہ مانے جائیںکہ عمر تک عادۃً انسان نہ پہنچتے ہوں۔ ورنہ جو عمر ان کی بوقت رفع یا بقول مرزائیہ بوقت موت بیان کی جاتی ہے۔ اس عمر میں کلام کرنا کوئی غیر معمولی صفت نہیں۔ اکثر وبیشتر انسان اس عمر تک پہنچتے ہیں اور لوگوں سے کلام کرتے ہیں۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام ہی کیا ہوا۔ نعوذ باﷲ آیت لغو ہوگئی۔ جیسا کہ ایک شاعر اپنے محبوب کی تعریف میں کہتا ہے ؎ وندان تو جملہ درد ہان اند چشمان تو زیر ابروان اند یعنی تیرے دانت منہ کے اندر ہیں اور تیری آنکھیں ابرو کے نیچے ہیں۔ بھلا کہئے تو کہ یہ کیا تعریف ہوئی۔ سب کے دانت منہ میں اور سب کی آنکھیں ابرو کے نیچے ہوتی ہیں۔ مرزائی چاہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اسی شعر کے مثل ایک لغو اور بے فائدہ کلام ہو جائے۔ خدا کا کلام لغوہو جائے تو ہو جائے۔ مگر عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تو ثابت ہو جائے ۔استغفراﷲ منہ! ف:۳… اس آیت سے دو تین ثابت ہوئیں۔ ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ایسی دراز ماننی چاہئے کہ اس عمر تک پہنچنا مثل کلام فی المہد کے خلاف عادت انسانی ہو۔