احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کے ساتھ مخصوص نہیں بتاتا۔ جیسا کہ یہودیوں کا قول تھا۔ ’’الذین اٰمنوا‘‘ اور ’’نصاری‘‘ اور ’’صابئین‘‘ وغیرہ الفاظ مذہبی حیثیت سے متجاوز ہو کر قومیت کے معنی میں مستعمل ہونے لگے تھے۔ جس طرح لفظ عرب کو جو قومیت کے لئے موضوع ہے۔ تمدن عرب کا مصنف مذہبی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو خواہ وہ کسی قوم کے ہوں عرب کہتا ہے۔ پس قرآن نے یہ بتایا ہے کہ جو شخص اسلام قبول کرے خواہ وہ کسی قوم کا ہو وہ نجات کا حقدار ہے اور اگر آیت کے معنی وہ لئے جائیں جو خواجہ صاحب کہتے ہیں تو معاذ اﷲ یہ ایک مہمل کلام ہوا جاتا ہے۔ اس لئے کہ: ’’الذین اٰمنوا‘‘ کے ساتھ ’’من آمن‘‘ کا لفظ کسی طرح نہیں لگ سکتا۔ یعنی ایمان والوں کے لئے یہ شرط لگانا کہ وہ ایمان لائیں بے معنی ہے۔ فقط! والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ! تحریرات بالا کے بعد ایک تحریر اور خواجہ صاحب کو بھیجی گئی اور اتمام حجت قطعی طور پر کر دیا گیا نقل اس کی حسب ذیل ہے۔ جناب خواجہ کمال الدین صاحب! گذارش ہے کہ بتاریخ ۱۰؍محرم الحرام۱۳۳۹ھ بعد نماز جمعہ آپ کی ایک تحریر جو آپ نے چند حضرات اہل سنت کے نام روانہ فرمائی ہے۔ سورقی مسجد میں پڑھی گئی۔ اس کے سننے سے ہمیں سخت تعجب ہوا کہ آپ نے ہمارے آٹھ سوالات کے جواب اپنے لیکچروں میں خصوصاً جوبلی ہال کے لیکچر میں بیان کئے۔ بڑے غیرت کی بات ہے کہ ہم نے بذریعہ پوسٹ رجسٹری اور دستی تحریریں آپ کی خدمت میں روانہ کیں اور ایک کھلی چٹھی بھی شائع کی اور اسی امید میں رہے کہ آپ براہ راست ہمیں جواب دیںگے۔ لیکن آپ کی حمیت نے یہ گوارا نہ کیا کہ آپ صاف طور پر نمروار ہر سوال کا جواب تحریر فرما کر ہمارے پاس بھیج دیتے یا بذریعہ اشتہار شائع کرتے۔ نہ کسی روز آپ نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ آج لیکچر میں ان سوالات کا جواب دیا جائے گا۔ جوبلی ہال کا لیکچر ایک دوسرے عنوان سے مشہتر کیاگیا تھا۔ جس کو دیکھ کر یہ وہم وگمان بھی نہ ہوتا تھا کہ آپ ہمارے آٹھ سوالات کی طرف توجہ کریںگے۔ بڑا افسوس ہمیں اس تحریر کو سن کر یہ ہوا کہ آپ نے باوجود طویل مضمون لکھنے کے ان خاص سوالات کا کچھ بھی جواب نہ دیا۔ بلکہ نہایت چالاکی سے اپنا عقیدہ چھپانے کی کوشش کی ہے اور بہت سی غیر ضروری باتوں سے کاغذ سیاہ کر کے اصل مقصد سے کوسوں دور جاکھڑے ہوئے ہیں۔ خواجہ صاحب! افسوس ہے کہ جس قدر اپنے خیال میں آپ اپنی صفائی مسلمانوں کو