احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
جواب یہ ہے کہ بہائی لوگوں کا یا ان سے سیکھ کر مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے پیرووں کا یہ کہنا کہ نبوت ختم نہیں ہوئی۔ قرآن اور عقل دونوں کے خلاف ہے۔ قرآن صاف تصریح کر رہا ہے کہ نبوت محمدﷺ پر ختم ہوگئی۔ ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب:)‘‘ {یعنی محمدﷺ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔} قرآن کی وہ دو آیتیں جن کا حوالہ اعتراض میں ہے۔ ان کا وہ مطلب نہیں ہے جو بہائی اور مرزائی بیان کرتے ہیں۔ بلکہ ان کا مفہوم صرف اس قدر ہے کہ خدا کی طرف سے نبی آئیںگے اور ہدایت آئے گی۔ یہ کسی لفظ سے اشارۃً بھی نہیں نکلتا کہ نبوت کبھی ختم نہ ہوگی۔ یہ بات دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان ہوچکی ہے کہ اگلی شریعتیں کیوں منسوخ ہوئیں۔ پس چونکہ وہ وجہ منسوخیت کی شریعت محمدیہ میں نہیں ہے۔ اس لئے محمدﷺ پر نبوت کا ختم ہوجانا عقل کے بھی موافق ہے۔ اگلی شریعتیں دین کامل نہ تھیں اور شریعت محمدیہ دین کامل ہے۔ اگلی شریعتوں میں تحریف ہوگئی تھی۔ لیکن شریعت محمدیہ کے محفوظ رہنے کا خدا ذمہ دار ہے۔ ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون (حجر:)‘‘ {یعنی یہ نصیحت ہم نے اتاری ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں۔} شریعت محمدیہ کا محفوظ رہنا ان سلسلہ اسانید کے علاوہ جو اہل اسلام کے پاس ہیں۔ تاریخی واقعات اور غیر مسلم اصحاب کی شہادت سے بخوبی ظاہر ہے۔ ۴… چوتھا اعتراض یہ ہے کہ قرآن کسی خاص پیغمبر کی پیروی میں نجات کو منحصر نہیں کہتا۔ جیسا کہ دوسرے پارہ کی آیت سے ظاہر ہے۔ پس اب کیا ضرورت دین اسلام قبول کرنے کی ہے۔ جواب یہ ہے کہ کسی خاص پیغمبر کی پیروی میں نجات کا منحصر نہ ہونا صرف خواجہ کمال الدین صاحب کا قول ہے۔ ورنہ قرآن کی بہت سی آیتوں میں بیان ہوا ہے کہ نجات دین اسلام میں منحصر ہے: ’’ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ (آل عمران)‘‘ {یعنی جو شخص اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا تو ہرگز اس سے نہ قبول کیا جائے گا۔} باقی رہی کسی دوسرے پارہ کی آیت جس کو لائق معترض نے نقل کیا ہے۔ اس کا مطلب خواجہ صاحب نے صحیح نہیں بیان کیا۔ اس آیت کا منشا صرف اس قدر ہے کہ قرآن نجات کو کسی قوم