احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس کے جواب میں عرض ہے کہ اوّل تو آپ نے ترجمہ ہی نہایت غلط کیا ہے۔ واﷲ اعلم آسمان پر اٹھائے گئے کس آیت کا ترجمہ ۱؎ ہے۔ خیر بہرکیف کچھ بھی ہو ہمیں آپ کا ترجمہ منظور ۲؎ ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نزول مسیح کے وقت سے لے کر ان کے مرنے تک تمام یہودونصاریٰ کا ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس کے متعلق میں پہلے آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ جب تمام یہودونصاریٰ مسلمان ہوجائیںگے تو ’’جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامۃ‘‘ کی پیش گوئی ۳؎ کس طرح پوری ہوگی۔ جب کہ ان تاکیدیہ اور نون ثقیلہ ہے اور نون ثقیلہ شاذونادر کے طور پر بھی یہود کو باہر نہیں رہنے دیتا۔ دوسری بات جو میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نزول مسیح کے وقت اگر یہودنا مسعود بغیر کسی قسم کی حیل وحجت کے اس کو قبول کر لیںگے تو کیا ۴؎ وجہ ہے کہ وہ اب قبول نہیں کرتے۔ آپ تو اس بات کا جواب جب دیںگے اور جو بھی دیںگے اس وقت انشاء اﷲ تعالیٰ غور کیا جائے گا۔ فی الحال یہودیوں کا جواب درج کرتا ہوں وہ اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ سلاطین باب۲ درس گیارہ میں لکھا ہے۔ ’’ایلیاہ بگولے میں ہوکر آسمان پر جاتا رہا‘‘ اور ایلیاہ کی نسبت ملا کی نبی نے اپنی کتاب کے باب۴ درس۵ میں یوں پیش گوئی کی ہے۔ ’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن آنے سے میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوںگا۔ سو جب تک ایلیاہ نہ آئے مسیح کا آنا محال بلکہ بعید ازخیال ہے۔‘‘ بازآمدم برسرمطلب۔ اب میں پوچھتا ہوں کہ اگر مسیح علیہ ۱؎ یہ تو ترجمہ نہیں مطلب کے لفظ سے انہوں نے بیان کیا ہے۔ تم کو ترجمہ ومطلب کا فرق بھی معلوم نہیں تو مصنف بننے کی ہوس کیوں کی۔ ۲؎ منظور کیوں نہ ہوتا پیر بخش صاحب نے اس کو بائبل سے ثابت کردیا۔ جس پر ایمان رکھنے کی تمہارے پیغمبر نے تاکید کی ہے۔ ۳؎ یہ پیشین گوئی تو اس حالت میں پوری نہ کہی جائے گی کہ متبعین اور کافرین دونوں موجودہوں اور متبعین کو کافرین پر فوقیت نہ ملے اور جب کہ دونوں فرقہ موجود نہ رہیں یا دونوں میں سے ایک موجود نہ ہوتو پیشین گوئی کے پورے ہونے میں کیا خلل؟ ذرا ہوش کی باتیں کیجئے۔ پھر الیٰ یوم القیامہ کا لفظ بمعنی ابداً بھی مستعمل ہوتا ہے۔ تحدید خاص مقصود نہیں ہوتی۔ ۴؎ ایسے امور کی وجہ وہی شخص پوچھ سکتا ہے جو خدا اور خدا کی قدرت ومشیت پر ایمان رکھتا ہو؟ اور پھر یہاں تو ظاہری وجہ بھی موجود ہے۔ یعنی ان کے نزول کا مشاہدہ۔