احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مگر ناظرین کو اس قدر تو معلوم ہو جائے گا کہ حیات مسیح علیہ السلام کے مسئلہ نے مرزائیوں کو کس درجہ سراسیمہ وپراگندہ کردیا ہے اور اس مسئلہ پر وہ قلم اٹھاتے ہیں تو ان کے دماغ کی کیا حالت ہو جاتی ہے۔ ان بہتر سوالات کا مختصر مختصر جواب بھی حاشیہ پر انشاء اﷲ تعالیٰ دے دیا جائے گا۔ دوسری دلیل جو آپ نے اپنی تقریر کے ص۴ میں درج فرمائی ہے وہ آپ کی وہی پرانی رام کہانی ہے۔ یہ وہی دلیل ہے جس کو اہل حدیث کے ایڈووکیٹ محمد حسین بٹالوی نے لدھیانہ میں حضرت اقدس کے سامنے پیش کرنا چاہا تو ایک شخص احمدی ۱؎ ہوگیا۔ پھر اسی آیت کو محمد بشیر سہسوانی نے دہلی میں پیش کرنا چاہا تو لوگوں نے اس کا ساتھ ۲؎ نہ دیا۔ کیوں وہ جانتے تھے کہ یہ آیت پیش کرنے سے ہم اعتراضات کایوں بے طرح تختہ مشق بنیںگے کہ یہ روسیاہی ۳؎ جو لک دارپالس سے کم نہیں۔ الیٰ یوم القیامہ دھوئے نہیں دھلے گی۔ وہ تمام اعتراضات آج ہدیہ ناظرین کئے دیتا ہوں۔ وباﷲ التوفیق! آپ (یعنی پیر بخش صاحب) فرماتے ہیں۔ اسی حیات مسیح کی تصدیق قرآن شریف بھی فرماتا ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ یعنی کوئی اہل کتاب میں سے نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائے گا۔ اس کی موت سے پہلے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت نہیں ہوئے۔ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور کوئی اہل کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ سے نہ ہوگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے مرنے سے پہلے عیسیٰ پر ایمان نہ لائے اور عیسیٰ علیہ السلام ان پر قیامت کے دن گواہ ہوگا۔ (بلفظ سطر ۱۸تا۲۱) ۱؎ پیش کرنا چاہا اس پر تو ایک شخص مرزائی ہوگیا اور شاید پیش کردیتے تو سارا لدھیانہ مرزائی ہوجاتا۔ لعنۃ اﷲ علی الکاذبین۔ ۲؎ مطبوعہ تحریرات کے خلاف بھی جھوٹ بولتے ہوئے تم کو شرم نہیں آتی۔ خیریہ تو سنت تمہارے پیغمبر کی ہے۔ رسالہ الحق الصریح مطبوعہ انصاری دہلی دیکھو۔ جناب مولانا محمد بشیر صاحب مرحوم نے یہ آیت پیش کردی تھی۔ پوری تقریر ان کی رسالہ مذکورہ میں درج ہے۔ جس کو سن کر مرزاغلام احمد قادیانی اپنے عزیز کی بیماری کا جھوٹا بہانہ کر کے دہلی سے بھاگ گیا۔ غضب تو یہ ہیے کہ تم خود اپنے پیغمبر کی چھپوائی ہوئی روئیداد مباحثہ دہلی کے بھی خلاف لکھ رہے ہو۔ دیکھو الحق مطبوعہ قادیان۔ ۳؎ یہ روسیاہی تمہارے پیغمبر اور اس کے دونوں خلیفہ کے لگ چکی ہے۔ اس سے تم کو تجربہ ہے۔