احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کہیں جاندار جسم کے لئے یہ لفظ دکھائیے۔ تو میں ضرور مان لوںگا۔ ناچیز نے یہ آیت پڑھی۔ ’’ورفع ابویہ علیٰ العرش‘‘ یعنی یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر اٹھایا۔ ’’فبھت الذی کفر‘‘ ۳… یہ کہنا کہ اب لے دے کر رفعہ پر رہی کہ رفعہ آسمان پر ہوتا ہے۔ کس قدر ابلہ فریب بات ہے۔ کس نے کہا کہ رفع کے معنی آسمان پر اٹھانے کے ہیں اور کس نے کہا کہ صرف رفع کا لفظ مدار استدلال ہے۔ رفع کے معنی تو اونچا کرنے کے ہیں۔ آسمان پر اٹھانا الیہ کے لفظ سے مفہوم ہوتا ہے۔ جس کی توضیح احادیث میں ہے۔ ابھی لطائف اس اعتراض کے بہت ہیں۔ مگر نمونہ کے لئے اس قدر کافی ہے۔ دوسرے ٹکڑے کی حقیقت یہ ہے کہ پیربخش صاحب نے اس آیہ کریمہ سے حیات مسیح علیہ السلام ثابت کی ہے۔ ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ {اور نہیں اہل کتاب میں سے کوئی مگر یہ کہ ضرور ضرور ایمان لے آئے گا۔ عیسیٰ پر ان کے مرنے سے پہلے۔} یہ آیت بھی صاف بتارہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ابھی مرے نہیں ہیں۔ ان کے مرنے سے پہلے یہودیوں کا ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اب رہی یہ بات کہ وہ مرے نہیں تو کہاں ہیں اور دنیا میں کیونکر آئیںگے اور یہودی ان پر کیسے ایمان لائیںگے۔ یہ سب باتیں احادیث میں مذکور ہیں۔ یہ آیت صرف حیات کی دلیل ہے۔ دقیقہ اس مقام پر تین چیزیں جداجدا ہیں۔ اوّل، مسیح علیہ السلام کا زندہ ہونا۔ دوم، مسیح علیہ السلام کا زندہ مع جسم آسمان پر اٹھالیا جانا۔ سوم، پھر دوبارہ ان کا دنیا میں نازل ہونا۔ آیات قرآنیہ میں پہلی چیز تو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور دوسری اور تیسری چیز آیات قرآنیہ میں اس وضاحت کے ساتھ نہیں ہے۔ البتہ احادیث صحیحہ میں جو حدتواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ البتہ تفصیل وتوضیح کے ساتھ مذکور ہے۔ مرزائی صاحبان اپنی بے تمیزی سے ان تینوں چیزوں میں کچھ فرق نہیں کرتے اور عجب خلط مبحث کر دیتے ہیں۔ جہاں حیات مسیح علیہ السلام کے ثبوت میں کوئی آیت پیش کی گئی تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ اس میں آسمان کا لفظ تو ہے نہیں۔ اس میں دوبارہ نزول کا توذکر ہی نہیں۔ یہ سب اسی بے تمیزی کا نتیجہ ہے۔ اب سنئے! اﷲدتہ صاحب اس پر کیا اعتراض کرتے ہیں اور کیسے نفیس بہتر مطالبات قائم فرماتے ہیں۔ میں ان کی پوری عبارت سے بلفظہ نقل کئے دیتا ہوں۔ اگرچہ فضول طول ہوگا۔