احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
فرمایا۔ ’’افائن مات اوقتل انقلبتم علیٰ اعقابکم‘‘ یعنی اگر محمدﷺ کو موت آجائے یا وہ قتل کردئیے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاؤگے۔ معلوم ہوا کہ قتل ہو جانا خاص کر راہ خدا میں ہرگز منافی شان نبوت نہیں۔ پس رفع کے معنی بلندی رتبہ لینا کسی طرح قتل کے منافی نہیں ہوسکتا اور لفظ بل بتارہا ہے کہ یہاں رفع منافی قتل ہے۔ لہٰذا قطعاً ثابت ہوگیا کہ رفع سے مراد زندہ مع جسم اٹھا لینا ہے۔ یہ تقریر استدلال کی اس تقریر سے بالکل جدا ہے۔ جو رفعہ کی ضمیر سے کیاگیا ہے کہ یہ ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھر رہی ہے۔ جن کی طرف ’’ماقتلوہ‘‘ اور ’’ماصلبوہ‘‘ کی ضمیریں پھر رہی ہیں۔ تو جس طرح وہاں جسم وروح دونوں کے مجموعہ کی طرف ضمیر پھرتی ہے۔ اسی طرح رفعہ میں بھی دونوں کے مجموعہ کی طرف پھرنا قطعی ہے۔ اﷲدتہ کا اعتراض اس مقام پر یہ ہے۔ اوّل… تو’’رفع الیٰ السماء بجسدہ العنصری‘‘ کے الفاظ آیت متذکرہ بالا میں دکھاؤ ورنہ کذب بیانی اور دھوکا دہی سے بچو۔ اب لے دے کر رفعہ پر رہی کہ رفعہ آسمان پر ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہاں تو رفعہ کے ساتھ الیٰ السماء موجود نہیں اور اگر ہو بھی تو تب بھی کوئی شخص رفعہ کے ہونے سے آسمان پر نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پر ایک حدیث درج کرتا ہوں۔ ’’اذا تواضع العبد رفعہ اﷲ الیٰ السماء السابعۃ رواہ الخرائطے فے مکارم الاخلاق عن ابن عباسؓ‘‘ خرائطی اپنی کتاب مکارم الاخلاق میں ابن عباسؓ سے روایت کرتا ہے کہ جب بندہ تواضع کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس کو ساتویں آسمان پر اٹھا کر لے جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو (کنزالعمال ج۲ ص۱۲۵) اگرچہ ہماری تقریر بالا کے بعد اس اعتراض کی کچھ وقعت نہ رہی۔ کیونکہ ہمارا استدلال صرف رفع کے لفظ سے نہیں ہے۔ مگر پھر بھی چند لطائف اس کے علاوہ علمی اغلاط کے حسب ذیل ہیں۔ ۱… یہ کہنا کہ بجسدہ العنصری کا لفظ آیت میں ہیں، معلوم ہوا کہ اگر صرف بجسدہ کا لفظ بغیر قید عنصری کے ہوتی۔ تب بھی مرزائی نہ مانتے اور میں کہتا ہوں کہ بالفرض یہ الفاظ بھی ہوتے تب بھی مرزائی نہ مانتے۔ جیسی تاویلات بدتر از تحریفات مرزائیوں کا خانہ ساز پیغمبر کیا کرتا ہے۔ ان کا دروازہ تو اب بھی بند ہوتا۔ کہہ دیتا کہ جسد عنصری کے ساتھ زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندہ صلیب سے اتار لئے گئے اور ان کے جسد عنصری کو یہ رفعت حاصل ہوئی کہ صلیب پر مرنا جو منافی شان نبوت ہے اس سے بچا لیاگیا۔ چنانچہ یہی اس کا قول بھی ہے۔