احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
پس جب قرآن کی یہ تصریح ہے تو اس کے خلاف کسی آیت کا مطلب لینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔ کیونکہ کسی کلام سے کوئی ایسا مفہوم استنباط کرنا جو اس کلام کے دوسرے حصہ کی تصریح کے خلاف ہو۔ عقلاً بھی جائز نہیں۔ ۲… دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن دوسرے مذاہب کے خدائی آغاز کو تسلیم کرتا ہے اور توریت کو نور وہدایت کہتا ہے۔ پس ایسی حالت میں اگریہ وحیاں کامل تھیں تو کیوں منسوخ ہوئیں۔ ناکامل تھیں تو وہ لوگ کیوں کامل چیز سے محروم کئے گئے۔ جواب یہ ہے کہ قرآن شریف نے بیشک یہ بیان کیا ہے کہ ہر قوم اور ہر ملک میں نبی آئے اور ہدایت اتری۔ مگر یہ کہیں نہیں بیان کیا کہ دنیا کے موجودہ مذاہب وہی ہیں۔ جن کی تعلیم نبیوں نے دی۔ بلکہ یہ تصریح اکثر آیتوں میں ہے کہ انبیاء کی تعلیمات اور خدائی کتابوں میں ان نبیوں کے بعد بہت کچھ تحریف وتبدیل لوگوں نے کر دی۔ اس تحریف وتبدیل کا ثبوت تاریخی واقعات اور دوسرے دلائل سے بھی ہم کو ملتا ہے۔ پس اب سمجھ لینا چاہئے کہ اگلی شریعتوں کے منسوخ ہونے کی دو وجہ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ شریعتیں اصلی حالت پر باقی نہ تھیں۔ ان میں بہت تحریف ہوگئی تھی۔ دوسرے یہ کہ قرآن دین کامل لے کر آیا ہے اور اگلی شریعتیں بہ نسبت شریعت محمدیہ کے دین کامل لے کر نہیں آئی تھیں۔ جیسا کہ فرمایا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم (مائدہ)‘‘ آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا۔ بہ نسبت اگلی شریعتوں کے، شریعت محمدی کا مکمل ہونا دونوں شریعتوں کے مسائل دیکھنے سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ باقی رہا کہنا کہ اگلی قومیں کیوں ایسے دین کامل سے محروم کی گئیں۔ ایک بیجا اعتراض ہے۔ نظام عالم ہم کو بتلا رہا ہے کہ قانون قدرت یہی ہے کہ ترقی بتدریج ہوتی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے اس وقت کمزور ہوتا ہے۔ بولنا چلنا پھرنا اور تمام وہ قوتیں جو انسان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بتدریج اس میں پیدا ہوتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں۔ اب اس پر یہ اعتراض کرنا کہ پہلے ہی سے سب قوتیں انسان کو کیوں نہ مل گئیں اور بچے اس کمال سے کیوں محروم کئے گئے۔ قانون فطرت پر اعتراض کرنا ہے۔ ۳… تیسرا اعتراض یہ ہے کہ بہائی لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبری ختم نہیں ہوئی۔ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم وقتاً فوقتاً پیغمبر بھیجتے رہیںگے۔ پس بنی آدم میں ہمیشہ سلسلہ نبوت کا قائم رہنا چاہئے۔ محمدﷺ پر نبوت ختم ہونے کا عقیدہ غلط ہے۔