احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
جواب یہ ہے کہ قرآن شریف نے مذکورہ بالا مضمون صرف ان نبیوں کی بابت بیان کیا ہے جو آنحضرتﷺ سے پہلے آئے تھے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ سے پہلے کسی نبی کی نبوت ساری دنیا کے لئے نہیں ہوئی۔ ہر نبی صرف ایک خاص قوم کے لئے ہوتا تھا اور اسی قوم کی زبان میں ان پر وحی اترتی تھی۔ اس قضیہ کو الٹ کر یہ نتیجہ نکالنا کہ جس نبی کی جو زبان ہو اس کی نبوت اسی قوم کے ساتھ مخصوص ہے غلط ہے۔ قرآن عربی زبان میں اس لئے آیا کہ سب سے پہلے اہل عرب اور ان کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اس روشنی کا پھیلانا مقصود تھا۔ قولہ تعالیٰ: ’’لتکونوا شہداء علیٰ الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً (بقرہ:)‘‘ {تاکہ تم اے اہل عرب سب لوگوں کے سامنے گواہی دینے والے بنو اور رسول تمہارے سامنے گواہی دینے والے بنیں۔} قرآن شریف تصریح کر رہا ہے کہ آنحضرتﷺ کی نبوت اور قرآن کی ہدایت ساری دنیا کے لئے ہے۔ حسب ذیل آیتیں پڑھو۔ ۱… ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً الذی لہ ملک السمٰوات والارض لا الہ الا ھو یحیی ویمیت فاٰمنوا باﷲ ورسولہ النبی الامی (اعراف:)‘‘ {اے نبی کہہ دیجئے کہ میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ جس کی حکومت ہے۔ آسمانوں اور زمین میں، کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا۔ وہی جلاتا ہے۔ وہی مارتا ہے۔ پس ایمان لاؤ اﷲ پر اور اس کے رسول نبی امی پر۔} ۲… ’’وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیراً (سبائ:)‘‘ {یعنی اے نبی ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے۔} ۳… ’’واوحی الیّ ہذا القرآن لا نذرکم بہ ومن بلغ (انعام)‘‘ {یعنی یہ قرآن مجھ پر وحی کیا گیا تاکہ میں تم کو اس کے ذریعہ سے ڈراؤں اور نیز ان تمام لوگوں کو جن تک قرآن پہنچ جائے۔} ۴… ’’تبارک الذی نزل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعلمین نذیراً (فرقان)‘‘ {برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندوں پر قرآن اتارا تاکہ وہ تمام دنیا کے لئے ڈرانے والا بنے۔}