احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
فرمائیے کہ کیا ۱؎ اس طرح کا خلاصہ لکھنا جائز ہے؟۔ کیا پندرہ ماہ کی مدت کو پس انداز کرنے سے رجوع الحق کی شرط کو چھوڑنے سے پیشین گوئی کی وہی حیثیت رہی جو پہلے تھی۔ یقینا نہیں رہی۔ اس طرح کا خلاصہ اور مختصر بیانی سے ایک فریق کو یعنی مرزا قادیانی کو بہت زیادہ ناجائز فائدہ پہنچ جاتا ہے۔ کیونکہ برسوں کے بعد جب آتھم دنیا سے گزر چکا ہے ایک ناواقف شخص کشتی نوح کی مذکورہ بالا عبارت کو پڑھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ایک فریق زندہ موجود ہے اور دوسرا مرچکا۔ وہ فوراً زندہ فریق کے حق میں ڈگری دے دیتا ہے۔ حالانکہ اگر اصل کیفیت معلوم ہوکہ مدت پندرہ ماہ مقرر تھی۔ شرط رجوع الی الحق تھی اور سزا ہاویہ میں گرایا جانا جس کے معنی صرف گھبراکر سراسیمہ پھرنا کہا گیا تھا۔ تو قرینہ غالب ہے کہ وہ اس پیشین گوئی کے بارے میں کچھ اور رائے قائم کرسکتا تھا۔ پس پیشین گوئی کو اس طرح مختصر کرنے سے ایک ناواقف کو دھوکہ لگنے کا احتمال ہے یا نہیں؟۔ میرے خیال میں ضرور احتمال ہے اور قومی احتمال ہے۔ احتیاط اور حزم کے خلاف ہے۔ اب میں بہت تھک گیا ہوں اور یہ تو مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ عاجزراقم عبدالمجید،۱۰؍اکتوبرکلکتہ اب میں تمام اہل حق سے اور بالخصوص اپنے عزیز کاتب خط سے ضرور کہوں گا کہ مرزا قادیانی کی صرف آتھم والی پیشین گوئی مرزا قادیانی کی حالت معلوم کرنے کے لئے کامل معیار ہے۔ اگر انصاف اور حق پرستی کی نظر سے دیکھی جائے۔ اول تو اصل پیشین گوئی کو دیکھا جائے کہ کس زور سے پندرہ ماہ کے اندر مرکر اس کا ہاویہ میں گرایا جانا لکھا ہے اور جب اس وثوق اور یقینی میعاد کے اندر وہ آتھم نہیں مرا تو مرزا قادیانی نے کیسی کیسی باتیں بنائی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ آخر میں عاجز ہوکر کشتی نوح میں اپنے دعوے کو بالکل بدل کر یہ کہتے ہیں کہ فریقین میں سے جو شخص جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ کہاں پندرہ ماہ کے اندر مرنا اور کہاں اس کے مرنے کے بعد یہ کہہ دینا کہ جھوٹا پہلے مرے گا۔ یہ صریح جھوٹ اور علانیہ بناوٹ ہے جو مرزا قادیانی نے اس پیشین گوئی کے غلط ہوجانے پر کی ہے۔ نہایت روشن طریقے سے ان کے کاذب ہونے کو ثابت کررہی ہے۔ اب جس کا جی چاہے وہ اس کھلی صداقت کو قبول کرے اور جس کا جی چاہے علانیہ کذب کی پیروی میں رہے۔ ۱؎ میرے عزیز سلمہ کو ابھی تک وہی دنیاوی لحاظ مرزا قادیانی سے باقی ہے۔ اسی وجہ سے لفظوں میں ان کی جانب داری کرتے جاتے ہیں۔ نمبر۵ والی پیشین گوئی کے خلاصہ سے کشتی نوح کے مضمون کو کیا نسبت۔ صاف یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کا خلاف واقعہ جھوٹ لکھنا جائز ہے؟۔ دینی امور میں اس قسم کی رعایت کا نام مداہنت ہے اور قانونی اصول کے رو سے خلاف دیانت۔ ارباب نظر کے لئے میری تقریر پر غور لازم ہے۔