احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہے اوریقین دلایا ہے کہ اس سے زیادہ یقین دلانے کا کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح احمد بیگ کے داماد کی موت کی پیش گوئی بڑے زور سے کی ہے کہ ڈھائی برس میں مرجائے گا۔ جب نہ مرا تو یہ کہا گیا کہ خوف وہراس سے میعاد ٹل گئی۔ مگر میرے سامنے اس کا مرنا ضرور ہے۔ اگر میرے سامنے وہ نہ مرا اور میں مرگیا تو میں جھوٹا ہوں۔ پھر مرزاقادیانی اپنے الہام کی تفسیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’یاد رکھو کہ اس پیشین گوئی کی دوسری جزو (یعنی احمد بیگ کے داماد کی موت) پوری نہ ہوئی تو میں ہر بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو یہ انسان کا افتراء نہیں یہ کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں یقینا سمجھو کہ یہ ۱؎ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔ وہی رب ذوالجلال جس کے ارادوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ (انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) پھر مرزاقادیانی اسی (انجام اتھم ص۲۲۳، خزائن ج۱۱ ص۲۲۳) میں فارسی الہام بیان فرماتے ہیں وہ یہ ہے۔ بازشمار ایں نگفتہ ام کہ ایں مقدمہ برہمیں قدر باتمام رسید ونتیجہ آخری ہمان است کہ بظہور آمد حقیقت پیش گوئی برہماں ختم شد۔ بلکہ اصل امر برحال خود قائم است وہیچکس باحیلہ خود اور اردنتو اند کردو ایں تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر ۲؎ مبرم است وعنقریب وقت آں خواہد آمد۔ پس قسم آں خدائے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ برائے مامبعوث فرمود اور ابہترین مخلوقات گردانید کہ ایں حق ست وعنقریب خواہی دیدومن ایں رابرائے صدق خود یا کذب خود معیارمی گردانم ومن نگفتم الابعد از آنکہ از رب خود خبر دادہ شدم۔ یہ ہیں مرزاقادیانی کے الہامات جن کو اپنے صدق وکذب کا معیار قرار دیا ہے۔ مگر ۱؎ جب ہی تو صاحب فیصلہ آسمانی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی رسول نہیں اور نہ الہام ربانی ہے۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ تو اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ ہم اپنے رسول سے خلاف وعدگی نہیں کرتے۔ اگر مرزاقادیانی رسول ہوتے اور یہ ربانی الہام ہوتا تو ضرور پورا ہوتا اور ان کے سامنے مرتا ۲؎ مرزاقادیانی کی الہامی تقدیر مبرم کو ناظرین دیکھیں کہ کیا معلق اڑ گئی۔ اب عقل والا اس الہام کو ربانی کہہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔