احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
بچھڑے ہوئے بھائیوں کو اکٹھا کروں اور اﷲ کے واسطے جو کچھ ان کے خیالات کی غلطی ہو عام طور سے بلاروورعایت ظاہر کردوں۔ اگر مان گئے تو ان کا بھلا ہوا۔ نہ مانیں تو میں بری الذمہ ہوں۔ ’’ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم‘‘ مفتی صاحب! رسالہ فیصلہ آسمانی گمنام نہیں چھپا ہے۔ عینک لگا کر دیکھئے ٹائٹل ہی پر مؤلف کا نام حضرت مولانا سید ابواحمد رحمانی صاف طور سے لکھا ہوا ہے۔ اصل یہ ہے کہ دروغ گورا حافظہ نباشد۔ پبلک کے سامنے اس صریح جھوٹ کا آپ کے پاس کچھ جواب ہے جو آپ نے لکھا ہے۔ ’’کسی مولوی نے جو بسبب بزدلی اور نامردی کے اپنا نام ظاہر کرنے سے ڈرتا ہے ایک رسالہ چھاپا ہے۔ جس کا نام فیصلہ آسمانی رکھا ہے۔‘‘ یہاں پر ناظرین سے التماس ہے کہ رسالہ فیصلہ آسمانی خود ملاحظہ کر کے ایڈیٹر صاحب کی راست بازی اور نیک دلی کی داددیویں۔ کیا اخبار کے ایڈیٹر کا یہی شیوہ ہے کہ صریح جھوٹ لکھے اور بدیہی واقعات کا انکار کرے۔ شرم ہزار شرم۔ شاباش ایڈیٹری کو بھی بدنام کیا۔ جھوٹ بول کر اپنی وقعت خود انسان کھوتا ہے۔ آئندہ اس کی تحریر پر ذرا برابر وثوق نہیں رہتا۔ اس میں مؤلف صاحب کا کیا بگڑا۔ آپ خود اپنے ہاتھ سے اپنی عزت کا خون کرتے ہیں۔ بقول سعدیؒ ؎ ہر کس ازدست غیر نالہ کند مفتی از دست خویشتن فریاد لیجئے اب بزدلی اور نامردی کا بھی سبق جس کو دل سے بھلا دیا ہے یاد کر لیجئے اور ایسا نقش کا لحجر کر لیجئے کہ پھر کبھی سہو اور خطا نہ ہونے پائے۔ بزدلی اور نامردی تو خود مرزاقادیانی نے بارہا دہلی کے مناظرہ میں، لاہور میں، قادیان میں بمقابلہ شمس العلماء مولانا سید نذیر حسین صاحبؒ محدث دہلوی، پیر مولانا مہر علی شاہ صاحب، مولوی ثناء اﷲ صاحب وغیرہم ایسی دکھائی ہے کہ ناگفتہ بہ۔ اہل حق کے سامنے آنے سے ان کی روح کانپ جاتی تھی۔ اشتہارات تو لمبے چوڑے مرقومہ اکتوبر ۱۸۹۱ء شائع کر دئیے تھے۔ مگر جب مقابلہ کے لئے بلائے گئے ایک نہ ایک عذر مجہول وحیلۂ نامعقول کر کے کافور ہی ہوگئے۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی محمد بشیر صاحب سہسوانی بھوپالی کا واقعہ روئیداد مناظرہ میں طشت ازبام ہوچکا ہے اور چھپ کر تمام