احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
سے کام لیاگیا ہے؟ پھر جو آپ نے حضرت مولانا ابواحمد رحمانی مصنف رسالہ فیصلہ آسمانی کے اوپر دور سے رامپوری گرے ہونڈ کی طرح زور زور سے بھونکنا شروع کیا۔ یہ کیوں؟ جواب باصواب دینا اور شے ہے اور جب لوگ جواب دینے سے عاجز آجاتے ہیں تو گالیاں سناتے ہیں۔ وہی انداز آپ کا رہا۔ اس لئے میں بھی بشری حیثیت رکھتا ہوں اور اہل قلم ہوں۔ آپ ہی کے لہجہ میں جواب دیا گیا۔ آپ شائستگی اختیار کیجئے گا تو میں دس گنا تہذیب کو برتوںگا۔ رکھ پت رکھاؤ پت۔ محققانہ جواب عالمانہ اعتراضات فلسفیانہ استدلات کیجئے۔ پبلک جس کو میزان عقل سے تولے تاکہ احقاق حق وابطال باطل ہو جائے۔ شریفانہ روش تو یہ تھی جس کو آپ نے غصہ میں آکر کالے کوس دور پھینک دیا اور بازاری لہجہ میں خدا جانے کیا اوّل فول بکا اور ناحق اپنے اخبار کا منہ دروغ بے فروغ سے کالا کیا۔ مفتی صاحب! مونگیر وبھاگلپوری کو دیکھئے۔ مباحثہ کے پیشتر آ کے بھائیوں نے کیا کیا جال پھیلایا۔ کیسے کیسے اشتہارات شائع کر کے مباحثہ کے خواہاں ہوئے۔ پہلے تو علماء کرام نے ان کی طرف مطلق توجہ نہ فرمائی۔ کیونکہ خطاب کے لائق تو وہی ہوتا ہے جس میں کچھ بھی بوئے صداقت پائی جائے۔ آپ کے گروہ کا تو من اولہ یہی دستور رہا کہ جھوٹ کا تو مارباندھ کر نشانات نبوت قرار دیتے آئے۔ اب جو بعض علماء کرام نے اس کی اشد ضرورت دیکھی تو امر باالمعروف کا حکم بجالایا۔ فقط اشارہ کی دیر تھی۔ مناظرہ کے لئے بڑے پیمانہ پر بحمدہ سامان بہم ہوگیا، اور دور دور سے علماء وفضلا وخواص وعوام مدعو ہوکر قدم رنجہ فرماتے گئے اور بحمدہ تعالیٰ اس ہادی گمراہاں کے فضل کی ایسی بارش ہوئی اور یہ کر دکھایا کہ پانچ چھ ہزار آدمیوں کے سامنے آپ کے بھائیوں کو شکست فاش ہوئی اور ذلت کی بوچھاڑ نے ان کو ایسا شرابور کردیا کہ بھاگتے وقت قدم اٹھنا دشوار ہوگیا تھا۔ جناب ایڈیٹر صاحب! ایسا تو ہوگیا کہ بعد مباحثہ مونگیر ہمارے قدیم دوست مولوی ماجد صاحب بھاگلپوری (مرزائیوں کے سرگروہ) عام مجلسوں میں بھی لوگوں سے دبکتے پھرتے ہیں۔ مقابلہ ومواجہ سے ان کو شرمندگی ہوتی ہے۔ جدھر نکلے ادھر انگلی اٹھ گئی کہ مولوی ماجد مرزائی ہوگئے۔ حکیم عبدالسلام مرحوم کی مسجد میں جمعہ پڑھاتے تھے۔ مسلمانوں نے ان کی امامت موقوف کر دی۔ مسجد سے نکال دئیے گئے یا تو اسی بھاگلپور میں لوگ عزت وتوقیر کی نگاہ