احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
دستخط بقید لقب مفتی ثبت کر کے اس قدر عبارت لکھ دیجئے کہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی اور مسیح موعود مانتا ہوں اور حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مرگئے۔ جیتے نہیں۔ میں بھی کل اخراجات سفر کابل دہلی میں جمع کردیتا ہوں۔ لیجئے ایڈیٹر صاحب یہ چیک حاضر ہے۔ ہمت ہو تو منظور کر لیجئے۔ پھر مفت کا سفر نصیب ہونے کا نہیں۔ ہاں جناب ایڈیٹر صاحب! اب فرمائیے کس کا سر کچلا گیا اور کون مارا گیا؟ اس قدر سفید جھوٹ سے اپنے اختیاری کالم کو روسیاہ کیا۔ اب پبلک کے سامنے آپ کے جھوٹ کی قلعی کھل گئی۔ غیرت ہو تو طرابلس میں جاکر جان دیجئے اور شہیدوں میں نام لکھا ئیے۔ تب آپ کا کفارہ ہوگا۔ ہندوستان میں بھی باوجود سلطنت انگریزی ہونے کے آپ ہی لوگوں کا سرکچلا جارہا ہے۔ مگر مرزائیوں کے جسم پر فالج کا سخت مادہ نازل ہو رہا ہے۔ اس لئے حس صحیح ان سے زائل ہوگیا اور برابر سر کچلتے کچلتے دردوالم اس کا مساوات ہوکر احساس باقی نہ رہا۔ ابتداء میں پنجاب کے علمائے حقانین نے مرزائی فتنہ کی پوری مزاحمت کی۔ ان کے عقائد باطلہ سے پبلک کو آگاہ کیا۔ براہین احمدیہ کے سبز باغ کو بوضاحت تمام معلوم کرایا۔ الہامات مرزا، الذکر الحکیم، عصائے موسیٰ سے مرزاقادیانی کی خبر لی گئی۔ اس پر ۱؎ بھی یہ ڈھٹائی کہ غیر احمدیوں کا سر کچلا گیا۔ واہ! مفتی صاحب حق نمک بھلا ایسا تو ہو۔ روٹی کی خاک جھاڑنا کوئی آپ ہی سیکھے۔ دیکھا! کیسا سرکچلا گیا اور کس کا کس کا بڑی خیریت ہوئی کہ مرزائیوں میں غیرت اور شرم نہیں۔ ورنہ سینکڑوں اس سر کچلے جانے کے بعد دھیلے کی سنکھیا منگا کر خود کشی کر کے حرام موت مرتے۔ مفتی صاحب! ازماست کہ برماست پیش نظر رکھ کر فیصلہ کیا کیجئے۔ سابق کے چند رسالے اس ناچیز کے شائع ہوچکے ہیں۔ آئینہ قادیانی، اظہار حق وغیرہ ذرا غور سے ملاحظہ کیجئے اور دکھادیجئے کہ مرزاقادیانی یا جناب حکیم خلیفتہ المسیح یادیگر حضرات کی شان میں کوئی خلاف تہذیب یا بازاری لہجہ ۱؎ دہلی میں منشی قاسم علی نے سر اٹھایا احمدی پرچہ جاری کر کے اپنے تمام مخالفین کو عموماً اور مولوی ثناء اﷲ صاحب فاتح قادیان کو خصوصاً گالیاں دینا شروع کیا۔ چند ہی مہینوں کے بعد لدھیانے میں ان کا سرکچلا گیا اور ان کے فریق نے بفحوائے ’’من قتل قتیلا فلہ سلبہ‘‘ مبلغ تین سو روپے ان سے وصول کئے۔ جس کی تاریخ اس شعر سے نکلتی ہے۔ شعر، قادیانی کا سر اڑا کے لکھو۔ مال موذی نصیب غازی سے۔