احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اسسٹنٹ سرجن، شمس العلماء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی، حکیم مظہر حسین مصنف چودھویں صدی کا مسیح، منشی الٰہی بخش صاحب عصائے موسیٰ، شمس العلمائ، مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی، مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالی، مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی، علامہ پیر مولانا مہر علی صاحب وغیرہ وغیرہ سینکڑوں سربرآوردہ علماء اور فہمیدہ بزرگوار تھے اور اب تک ان میں سے موجود بھی ہیں۔ جن کے مقابلہ سے دہلی اور لاہور وغیرہ شہروں سے مرزاقادیانی نے فرارورزی کی اور اپنی بزدلی اور نامردی کو پبلک پر روزروشن کی طرح دکھاگئے اور خلقت پر مرزاقادیانی کی حقیقت کھل گئی۔ بقول خواجہ آتش لکھنوی ؎ سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا افسانہ کیا کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا جن کی زور دار تحریروں نے مرزاقادیانی کی ناک میں دم کردیا۔ ان کی خیالی نبوت کا قلع وقمع کردیا۔ ان کی تمام مصنوعی عمارتوں کو ڈھادیا۔ ان کی جھوٹی پیشین گوئیوں پر پانی پھیر دیا۔ پبلک پر ازشرق تا غرب جھوٹا نبی ثابت کردیا۔ ان کی ابلہ فریبیوں کو اظہر من الشمس کر دکھایا۔ ان کے کاغذی گھوڑوں کی ٹانگ توڑدی۔ اس پر ایسا سنہرا جھوٹ کیوں نہ ہو۔ ایڈیٹری اخبار کا منصب اور اس کا فرض خوب ادا کیا۔ شرم، شرم، ہزار شرم، مفتی صاحب! اب اس جھوٹ سے کام نہیں چلتا۔ پہلے مرزاقادیانی کے کرتوت لوگوں کو معلوم نہ تھے۔ اب دنیا پر بخوبی ظاہر ہوگیا کہ مرزاقادیانی کیسے تھے۔ لیجئے! اب مجھ سے اس کی تفصیل سن لیجئے اور خود مرزاقادیانی کی زبان سے ؎ کیا لطف جو غیر پردہ کھولے جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے مرزاقادیانی نے اپنے مخالفین کے حق میں سینکڑوں بدعائیں کیں۔ بیوہ عورتوں کی طرح کوسا، کاٹا، ان کے سامنے اپنی موت کو ذلت کی موت قرار دیا۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب کو خود مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ۱… اگر میں ۱؎ کذاب اور مفتری ہوں تو میں آپ کی زندگی ہی میں ہلاک ہو جاؤںگا۔ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸) ۱؎ اﷲتعالیٰ نے ایسا ہی کر دکھایا کہ مرزاقادیانی کو مولوی ثناء اﷲ کی زندگی ہی میں ہلاک کرکے دنیا پر ظاہرکردیا کہ وہ کذاب تھے۔