احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
الشمس ہورہا ہے کہ ان کے نزدیک بھی فیصلہ آسمانی کے دلائل قاطع ہیں۔ اس کا جواب وہ ہرگز نہ دیںگے۔ کیونکہ وہ ذی علم مناظر ہیں۔ دلائل قاطعہ کے جواب میں زٹل قافیہ اڑانا ان کی شان سے دور ہے۔ لہٰذا کبھی کبھی احمد کی پگڑی محمود کے سر پر رکھ دیا کرتے ہیں اور اپنے گروہ کو خوش کر لیا کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی احقاق حق کے خلاف ہے۔ سیدھی بات تو یہ ہے کہ سچ کو سچ مان لیجئے اور دنیاوی شرم ولحاظ کو لات مارئیے۔ شرم تو خدا سے چاہے جو ’’مالک یوم الدین‘‘ ہے جس کے سامنے ایک روز جو ابدہی کے لئے کھڑا ہونا ضرور ہے اور وہاں یہ دکھلایا جائے گا کہ محمد مصطفیﷺ اور عیسیٰ بن مریم (علیہما الصلوٰۃ والسلام) یہ ہیں نہ مرزاغلام احمد قادیانی، اس وقت کیا جواب دیجئے گا۔ اس کو بھی آپ ازروئے علم خوب جانتے ہیں کہ وہاں نہ تو جھوٹی شہادتیں کام آویںگی نہ بات بنانے کی کسی کو جرأت ہوگی۔ اب حکیم صاحب خود تخلیہ میں اس ناچیز کی تقریر کو غور سے سوچ کر اپنا فیصلہ آپ کرلیں۔ زیادہ حد ادب ’’وما علینا الا البلاغ المبین‘‘ اڈیٹر صاحب البدر نے جوزہر اگلاہے۔ انہیں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور آگے چل کر پبلک کو واضح طور پر دکھایا جائے گا کہ ایڈیٹر صاحب نے کس قدر موٹا جھوٹ اپنے کالموں میں بھرا ہے اور مناظرہ کا کیا بازاری لہجہ رکھا ہے۔ ہاں پبلک مجھے اس جواب کے طرز تحریر بدلنے اور کچھ سختی سے کام لینے میں معذور سمجھے گی۔ کیونکہ ان کی بدزبانی کا جواب ہے۔ ورنہ فیصلہ آسمانی آئینہ قادیانی وغیرہ موجود ہے۔ اس کو دیکھ لیا جائے کہ کس شائستگی سے اس کا انداز رہا ہے۔ ایڈیٹر صاحب یوں دیکھتے ہیں۔ آسمانی باتوں کی مثالیں بہت کچھ دنیوی حالات میں ملتی ہیں۔ جب کوئی سرکاری سپاہی کسی گاؤں میں جاتا ہے تو ضرور ہے کہ وہ کسی ظالم اور بدکار کے لئے باعث خوف اور کسی مظلوم اور نیکوکاروں کے واسطے خوشی کا موجب ہو۔ بدکار اس سے بھاگتے ہیں۔ گالیاں سناتے ہیں اور بدکاروں کے مظہر گاؤں کے کتے سب سے اوّل اس پر بھونکنا شروع کرتے ہیں۔ بلکہ عوام کو اس کے آنے کی خیر بھی اسی سے لگتی ہے۔ یہی حال روحانی نامورین کے آنے کے وقت ہوتا ہے۔ ہر ایک متکبر جفاکار اس کے مقابلہ کے لئے اٹھتا ہے اور اپنے گھمنڈ میں جوش مارتا ہے کہ اسے کچل ڈالے۔ مگر پرانے شیطان کی طرح آخر اس کا اپنا ہی سر کچلا جاتا ہے۔ ایسا ہی تمام انبیاء کے وقت ہوتا آیا ہے اور یہی واقعہ حضرت مسیح کے وقت میں بھی ہوا۔ سب سے پہلے تو پنجاب کے ہی علماء اٹھے۔ کسی نے یہاں سر نکلالا اور کچل گیا۔ کوئی وہاں اٹھا اور مارا گیا۔ کوئی